Saturday 17 September 2016

مضمحل ہارا ہوا تنہا ملا

مضمحل ہارا ہوا، تنہا مِلا
جو مِلا اس شہر میں ایسا مِلا
کھِنچ گئے ہیں اس قدر اب فاصلے
اپنے پائیں باغ میں صحرا مِلا
کل جن آنکھوں میں اُگا کرتے تھے خواب
آج ان میں کل کا اندیشہ مِلا
پیاس بیچی جس سمندر کے لیے
وہ سمندر اور بھی پیاسا مِلا

راہی معصوم رضا

No comments:

Post a Comment