Thursday 22 September 2016

جب اس کے در سے میں اٹھا ملال کوئی نہ تھا

جب اس کے در سے میں اٹھا ملال کوئی نہ تھا
کہ میری جھولی میں باقی سوال کوئی نہ تھا ‌‌‌
بہار آئی تو، اپنا سِوائے زِنداں کے
تمام شہر میں پُرسانِ حال کوئی نہ تھا
وہ دن ہی ٹھیک تھے، جب دل میں رُت بدلنے کا
گمان و خواب، یقین و خیال کوئی نہ تھا
سفر سے لوٹا ہُوں جس سال بھی، مِرے گھر میں
سوائے غربتِ آئندہ سال کوئی نہ تھا
یقین کر، کہ تِری آنکھ اٹھنے سے پہلے
میری نگاہ کے شیشے میں جال کوئی نہ تھا
ہُوا جو یُوں، تو یہ خوبی تِرے ہنر کی تھی
مِری وفاؤں میں، میرا کمال کوئی نہ تھا
وہاں بھی ہم نے کمائی حلال کی روزی
جہاں پہ فرقِ حرام و حلال کوئی نہ تھا
ہمی سے، ہاتھ نہ اٹھے کبھی دعا کے لئے
وگرنہ اس کی خدائی میں کال کوئی نہ تھا
بھرے وہ زخم بھی سفاک وقت نے میرے
نظرؔ میں جن کا مِری، اندمال کوئی نہ تھا

ظہور نظر

No comments:

Post a Comment