Saturday 31 July 2021

مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

 مہ جبینوں کی اداؤں سے اُلجھ بیٹھا ہوں

اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

بابِ تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہیں

اس لیے اپنی دُعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جو غریبوں کا دِیا پھُونک کے تھم جاتی ہیں

ایسی کم ظرف ہواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

اب میرا انتظار کر

 اب میرا انتظار کر


میں جھلملاتی کسی کہکشاں سے اتری ہوئی

نہ جانے کون سی دنیا میں آن بیٹھی ہوں

یہ راستے تیری موجودگی کی خاک لیے

میرے وجود کے اس دشت سے گزرتے ہیں

تُو وقتِ فجر جہاں مجھ پہ آ کہ برسا تھا

یہ دن اس طرح کٹ گیا ہے کہ جیسے نسیں کٹ گئی

 گزرے دن کا نوحہ


یہ دن اس طرح کٹ گیا ہے کہ جیسے نسیں کٹ گئی ہوں

رگیں اینٹھتی ہیں

کشیدیں تو کیسے لہو کو کشیدیں؟

کہاں سے کشیدیں؟

بھلا کیسے قاشوں کٹے اس اذیت بھرے دن کو واپس بلائیں

تجھے اپنے ہونے کا نوحہ سنائیں

تمہارے جیسے تو ویسے بھی کم سمجھتے ہیں

 تمہارے جیسے تو ویسے بھی کم سمجھتے ہیں

ہمارے اپنے مسائل ہیں ہم سمجھتے ہیں

ہمارے سینے سے دنیا لپٹ کے روتی ہے

فقیر لوگ ہیں، لوگوں کا غم سمجھتے ہیں

تُو جتنے اشکوں سے گریہ گزار بنتا ہے

ہم اتنا رو لیں تو آنکھوں کو نم سمجھتے ہیں

روز محشر جب خدا

 کالا کوٹ


روزِ محشر جب خدا

خدا نہیں رہے گا

سب کو جمع کر کے

جب وہ برہنہ کرے گا

اور ہماری ذاتی زندگی کو

جب سرِ عام لِیک کرے گا

تبھی نمایاں ہوئی روشنی سمندر سے

 تبھی نمایاں ہوئی روشنی سمندر سے

نبھا رہا ہے کوئی دوستی سمندر سے

میں خودکشی کی تو قائل نہیں رہی تھی کبھی

مگر کسی کی جو آواز تھی سمندر سے

کسی کے پھینکے گئے پڑھ لیے خطوط اس نے

صدائیں آتی ہیں اب ماتمی، سمندر سے

نہیں نہیں وہ نہیں ہے یقیں نہیں ہوتا

 نہیں نہیں وہ نہیں ہے یقیں نہیں ہوتا

زیادہ اس سے حسیں ہے یقیں نہیں ہوتا

ہم آسمان مزاجوں کے غم الگ ہی ہے

ہمارے دکھ میں زمیں ہے یقیں نہیں ہوتا

کمال ہے مِرے لہجے کا درد کچھ بھی نہیں

تجھے بھی اس پہ یقیں ہے یقیں نہیں ہوتا

کچھ محبت کچھ گلہ آثار بارش ہو رہی ہے

 کچھ محبت کچھ گلہ آثار بارش ہو رہی ہے

دو بزرگوں میں دمِ گفتار بارش ہو رہی ہے

دوست پہلی نظم میں بھی صاف پانی بہہ رہا تھا

اس غزل میں اور تازہ کار بارش ہو رہی ہے

پہلے تو سب اہلِ خانہ گھر میں بیٹھے رو رہے تھے

آج لگتا ہے پسِ دیوار بارش ہو رہی ہے

بستیاں چپ جو ہوئیں بن بولے

 بستیاں چُپ جو ہوئیں بن بولے

شہرِ خاموش میں مدفن بولے

باغبانی کا ہے سب کو دعوے

آ گیا وقت کہ گُلشن بولے

نوکِ خنجر پہ صدا تُلتی ہے

اب اگر بول سکے فن بولے

خود کو پانے کی جستجو ہے وہی

 خود کو پانے کی جستجو ہے وہی

اس سے ملنے کی آرزو ہے وہی

اس کا چہرہ اسی کے خد و خال

اپنا موضوعِ گفتگو ہے وہی

ہیں اسی کے یہ رنگ ہائے سخن

میرے پہلو میں خوب رو ہے وہی

زندگی خار زار میں گزری

 زندگی خار زار میں گزری

جستجوئے بہار میں گزری

کچھ تو پیمان یار میں گزری

اور کچھ اعتبار میں گزری

منزل زیست ہم سے سر نہ ہوئی

یاد گیسوئے یار میں گزری

میرا وجود اس کو گوارا نہیں رہا

 میرا وجود اس کو گوارا نہیں رہا

یوں راہ زندگی میں سہارا نہیں رہا

فرقت میں اسکی صبر و تحمل تھا عشق میں

وہ آ گیا تو ضبط کا یارا نہیں رہا

ہر لحظہ شوقِ حسن میں یہ بےقرار ہے

اب میرا دل کے ساتھ گزارا نہیں رہا

تعلقات بوجھ نہیں ہوتے

 تعلقات بوجھ نہیں ہوتے


تمازت بھرے سورج کی راکھ دیکھ کر

جب پالتی مارے بیٹھو، سرمئی شام کے سنگِ سرد چبوترے پہ

جہاں اُگا ہے بوڑھا برگد

جس کی چھاؤں میں تم اکثر آوارگی لیے بیٹھتے تھے

نظرِ عمیق سے تکنا برگدی شاخچوں کو 

جو وقت کے دوش پہ

جو رب سے کروں التجا بانٹتا ہوں

 جو رب سے کروں التجا بانٹتا ہوں

بوقتِ سحر بس دعا بانٹتا ہوں

سخن کے سمندر سے چنتا ہوں موتی

خوشی سے میں حمد و ثنا بانٹتا ہوں

میرے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے

عطا کردہ رب کی عطا بانٹتا ہوں

دل یہ کہتا ہے کہ رویا جائے

 دل یہ کہتا ہے کہ؛ رویا جائے

آنکھ کے پیالوں کو دھویا جائے

لے اُڑا خواب تو آنکھوں سے کوئی 

اب نہ آرام سے سویا جائے

ہار جب ٹُوٹ کے بکھرے ہر سُو

آنسوؤں کو ہی پرویا جائے

جانے والے دل کی کھڑکیاں وا ہوتی ہیں

 جانے والے


دل کی کھڑکیاں وا ہوتی ہیں

منظر چمکتے ہیں

گھر کی ممٹیوں پر

چراغ جل اٹھتے ہیں

دالانوں میں

ان کے قدموں کی چاپ

تری مدد کا یہاں تک حساب دینا پڑا

 تِری مدد کا یہاں تک حساب دینا پڑا

چراغ لے کے مجھے آفتاب دینا پڑا 

تعلقات میں کچھ تو دراڑ پڑنی تھی 

کئی سوال تھے جن کا جواب دینا پڑا 

اب اس سزا سے بڑی اور کیا سزا ہو گی 

نئے سرے سے پرانا حساب دینا پڑا 

دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں

 دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں

اتنے جواب گم ہیں مِرے اک سوال میں

دریا بس اک قدم کبھی ساحل کی سمت آ

دیکھوں گا زور کتنا ہے تیرے ابال میں

کی احتیاط لاکھ مگر حال یہ ہوا

آنا تھا جن کو آ ہی گئے تیری چال میں

پار جانے والی ساری بیڑیوں کی خیر ہو

 پار جانے والی ساری بیڑیوں کی خیر ہو

بیڑیوں کی خیر ہو، سب پانیوں کی خیر ہو

شہر جانے والی پکی ہر سڑک پر لعنتیں

گاؤں جانے والی ساری گاڑیوں کی خیر ہو

اس نے دیکھا چاند تجھ کو چاند تیرا ہو بھلا

اس نے جھانکا کھڑکیوں سے کھڑکیوں کی خیر ہو

اپنے حالات کے ہاتھوں سے یہ مارا ہوا شخص

 اپنے حالات کے ہاتھوں سے یہ مارا ہوا شخص

پھر بھی مضبوط ہے اندر سے یہ ٹوٹا ہوا شخص

اپنی مرضی سے نہ جی سکتا نہ مر سکتا ہے

کتنا مجبور ہے جنت سے نکالا ہوا شخص

آگہی اپنی کہاں پائے، رہا کیسے ہو؟

وقت کے رسموں رواجوں میں یہ جکڑا ہوا شخص

دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں

 دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں

سایوں کے انتظار میں شب بھر کھڑا ہوں میں

کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مِری

کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں

پھیلا ہوا ہے سامنے صحرائے بے کنار

آنکھوں میں اپنی لے کے سمندر کھڑا ہوں میں

وقت آسیب ہے عرصۂ خاک پر کون ہے

 وقت آسیب ہے


عرصۂ خاک پر کون ہے

جو طلسمِ نمُو سے گزرتے ہوئے

رائیگانی کے طوفان کو روک لے

کون ہے؟ جو

طلب اور تمناؤں کی

نا رسی کی اذیت سے بچ کر چلے

یوں ہی چپکے چپکے رونا یوں ہی دل ہی دل میں باتیں

 یوں ہی چُپکے چُپکے رونا، یوں ہی دل ہی دل میں باتیں

بڑی کشمکش کے دن ہیں، بڑی اُلجھنوں کی راتیں

ہے نفس نفس فروزاں، ہے مژہ مژہ چراغاں

بڑی دُھوم سے اُٹھی ہیں غم و درد کی باراتیں

مِرے ذہن کے خلا میں، مِرے دل کی وُسعتوں میں

کہیں رنگ و بُو کے خیمے، کہیں نُور کی قناتیں

مرتے ہوئے وجود کی حسرت تمام شد

 مرتے ہوئے وجود کی حسرت تمام شد

سانسوں سے لپٹی آخری چاہت تمام شد

دستِ قضا بڑھا ہے مِری سمت، الوداع

اے اعتکافِ عشق! عبادت تمام شد

ساقی تمہارے مدھ بھرے ہونٹوں کا شکریہ

بادہ کشی کی ساری حلاوت تمام شد

وہ ایسے لفظ بنتا ہے

 میں اس کی نظم سنتی ہوں

تو سانسیں رک سی جاتی ہیں

وہ دل کے درد کو لفظوں میں کچھ ایسے پروتا ہے

کہ جیسے دور اک ویراں کھنڈر کے نیم محرابی سے کمرے میں

پڑے بوسیدہ سے اک ساز سے کوئی سوز جھڑتا ہو

میں اکثر سوچتی ہوں، درد سے اک درد کا

میں اک گھروندا ریت کا

 میں اک گھروندا ریت کا

ٹوٹ جاتا ہوں

ہاں میں ٹوٹ جاتا ہوں

لفظوں کی سختی سے

لہجوں کی گرمی سے

ٹوٹ جاتا ہوں

یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے

 یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے

کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے

نہ اتنا شور کر ظالم! ہمارے ٹوٹ جانے پر

کہ گردش میں فلک سے بھی ستارا ٹوٹ جاتا ہے

تسلی دینے والے تو تسلی دیتے رہتے ہیں

مگر وہ کیا کرے جس کا بھروسا ٹوٹ جاتا ہے

درد دل مستقل مختصر بحر کی غزل

 دردِ دل

مستقل

حسن یار

تِل بہ تِل

فکر آج

مشتعل

آ گئے ہیں ترے نشانے پہ

 آ گئے ہیں ترے نشانے پہ

داغ اک تیر اب ٹھکانے پہ

قصۂ مختصر نہ اور بڑھے

اتنا احسان ہو دِوانے پہ

مِرے پروردگار دنیا کی 

آنکھ ہے میرے آشیانے پہ

ذاتیات کے دائرے سے نکل کے دیکھ

 ذاتیات کے دائرے سے نکل کے دیکھ

لڑکھڑانے والے سنبھل کے دیکھ

میں کروں گا چرچا تیری دوستی کا

تُو رویہ اپنا بدل کے دیکھ

ہے یہ بھی زندگی کا حصہ

ڈوبتے سورج میں ڈھل کے دیکھ

کیسی محبت ہے

 پرستش


کیسی محبت ہے

لکھا قسمت میں جس کے

تمام عمر کا ہجر

کم کیسے ہو لگن

جب دل ہی خود

پرستار ہو جائے

ہے معمہ مری محبت بھی

 ہے معمہ مِری محبت بھی

شکر کے ساتھ ہے شکایت بھی 

دل کو پیاری ہے جس کی نفرت بھی 

کیا ہو گر وہ کرے محبت بھی 

دشمنِ اعتبار ہوتی ہے 

بعض حالات میں حقیقت بھی 

Friday 30 July 2021

جہاں چمن میں بہار آ کر بھی مسکرائے تو کچھ نہ پائے

 جہاں چمن میں بہار آ کر بھی مسکرائے تو کچھ نہ پائے

وہاں پہ بھنورا کلی کے آگے سُروں میں گائے تو کچھ نہ پائے

شجر کی چہرے پہ انگلیوں کے قلم سے ہم نے ہے عشق لکھا

جنوں میں ہم نے یہ کارنامے بھی کر دِکھانے تو کچھ نہ پائے

گلاب رُخ کے دلوں پہ ہم نے پپیہے جیسا تڑپ کے یارو

محبتوں کے حسین نغمے بھی گنگنائے تو کچھ نہ پائے

محبتوں کے مقالے سمجھ سے باہر ہیں

 محبتوں کے مقالے سمجھ سے باہر ہیں

جگہ جگہ پہ حوالے سمجھ سے باہر ہیں 

حسین چہرے پہ غم کا نزول کیوں کر ہے 

نئے مکان میں جالے سمجھ سے باہر ہیں 

بندھے ہیں ہاتھ تمہارے سمجھ میں آتا ہے

مگر زباں پہ تالے سمجھ سے باہر ہیں 

چراغ دل کا مقابل ہوا کے رکھتے ہیں

 چراغ دل کا مقابل ہوا کے رکھتے ہیں

ہر ایک حال میں تیور بلا کے رکھتے ہیں

ملا دیا ہے پسینہ بھلے ہی مٹی میں

ہم اپنی آنکھ کا پانی بچا کے رکھتے ہیں

ہمیں پسند نہیں جنگ میں بھی مکاری

جسے نشانے پہ رکھیں بتا کے رکھتے ہیں

غم ہو کہ خوشی کوئی تماشا نہیں کرتے

 غم ہو کہ خوشی کوئی تماشا نہیں کرتے

کچھ لوگ کسی بات کا چرچا نہیں کرتے

بے وجہ تو ہوتی نہیں آنگن کی خموشی

بچوں کو ہر اک بات پہ ٹوکا نہیں کرتے

انسان کی فطرت کا عجب حال ہے یارو

کچھ پیڑ گھنے ہوتے ہیں سایہ نہیں کرتے

زیادہ کچھ نہیں مر جائیں گے کسی دن ہم

 زیادہ کچھ نہیں مر جائیں گے کسی دن ہم

ہر ایک شے سے مُکر جائیں گے کسی دن ہم

ہر ایک جگہ بھٹکتے پھریں گے ساری عمر

بالآخر اپنے ہی گھر جائیں گے کسی دن ہم

نہ دیکھ روز حقارت سے اس قدر ہم کو

کوئی تو کام بھی کر جائیں گے کسی دن ہم

آخری شام کا رنگ کچھ مدھم سا ہے

 آخری ریہرسل کا سکرپٹ


آخری شام کا رنگ کچھ مدھم سا ہے

میرے گٹار میں جان نہیں آ رہی

میں اب وہی پرانا نغمہ

اور زیادہ دیر تک نہیں گنگنا سکتا

جس میں گالیوں کا رس نچوڑا گیا ہے

میں اپنی ناکامیوں اور محرومیوں کو

‏کیا تم کھل کر ہنس سکتے ہو

 ‏کیا تم ایسا کر سکتے ہو


‏کیا تم کُھل کر ہنس سکتے ہو

‏ایسے جیسے ان دیکھے جنگل کی ان دیکھی گھاٹی میں

‏پھول کِھلے اور کِھلتا جائے

‏اپنی خوشبو سے سرمست اور اپنے آپ سے بھرا ہوا

‏کیا تم نیر بہا سکتے ہو

‏ایسے جیسے بھادوں برکھا چھم چھم برسے، جل تھل کر دے

کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے

 کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

وہ دل سے چاہے جو میرا ہونا تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

جو شام ڈھلتے ہی میری آنکھوں میں جِھلملاتا ہے چاند بن کر

وہ اپنے سینے میں میری دھڑکن سمو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

جو اپنے زخموں کو میری نظروں سے دُور رکھنے کا سوچتا ہے

وہ میری پلکوں کی نرم چھاؤں میں سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

وقت کے آتشدان میں جاناں راکھ پڑی ہے یادوں کی

 چنگاری


وقت کے آتشدان میں جاناں

راکھ پڑی ہے یادوں کی

اور یادوں کی اس راکھ تلے

سانس لیتی

اک ننھی سی، زندہ چنگاری

چلو چل کر وہیں پر بیٹھتے ہیں

 چلو چل کر وہیں پر بیٹھتے ہیں

جہاں پر سب برابر بیٹھتے ہیں 

نجانے کیوں گھٹن سی ہو رہی ہے 

بدن سے چل کے باہر بیٹھتے ہیں 

ہماری ہار کا اعلان ہو گا 

اگر ہم لوگ تھک کر بیٹھتے ہیں 

سرحد میں کے پار ہے دریا

 سرحدِ میں کے پار ہے دریا

کتنا با اختیار ہے دریا

آپ کی دوستی ہے صحرا سے

اور مِرا غم گسار ہے دریا

اس کی آنکھیں بتا رہی ہیں مجھے

کس قدر دل فگار ہے دریا

قرار دل فسانہ ہو گیا ہے

 قرارِ دل فسانہ ہو گیا ہے

تمہیں دیکھے زمانہ ہو گیا ہے

تمہارے وعدۂ فردا کا حیلہ

قیامت کا بہانہ ہو گیا ہے

پرانے دوستوں کے گھر سنا ہے

تمہارا آنا جانا ہو گیا ہے

باپ پڑھ لیتا ہے یوں غم مرا پیشانی پر

 کائی آ جاتی ہے جس طرح کھڑے پانی پر

باپ پڑھ لیتا ہے یوں غم مِرا پیشانی پر

یوں بھی روئے ہیں کبھی بے سر و سامانی پر

دل جو مائل نہ ہوا غم کی فراوانی پر

آنے والوں نے یہ عجلت کا سبب بتلایا

منحصر ہوتے نہیں راہ کی آسانی پر

وہ بے وفا کوئی دم اور جو ٹھہر جاتا

 وہ بے وفا کوئی دم اور جو ٹھہر جاتا

رہِ طلب میں یہ دل یوں نہ در بدر جاتا

تِری گلی میں فسانے بکھیرنے کے لیے

یہ لازمی تھا کہ ہم سا ہی بے خطر جاتا

تجھ اجنبی کا ہو کیا غم کہ اس اندھیرے میں

میں اپنے آپ کو خود دیکھتا تو ڈر جاتا

معذرت نامہ میں دوبارہ نہیں آؤں گا

 معذرت نامہ


میں دوبارہ نہیں آؤں گا

مجھے تمہارا جسم

مزید نہیں چاہئے 

مجھے افسوس سے

یہ کہنا پڑ رہا ہے 

سید مرتضیٰ زمان گردیزی؛ تعارف

سید مرتضیٰ زمان گردیزی؛ تعارف




نام؛ مرتضیٰ زمان 

خاندان؛ سادات گردیزی (زیدی الواسطی)

تاریخ پیدائش؛ 10 اپریل 1973

رہائش؛ ملتان، پاکستان

تعلیم؛ انٹر میڈیٹ (کراچی) 

قومیت؛ پاکستانی

عرفیت؛ مرتضیٰ 

صنف شاعری؛ صوفیانہ کلام، رثائی ادب، نظم، غزل 

زبان؛  ملتانی، اردو 

نوحہ سن لیجئے آقا یہ تمنائی کا

 "وقت یہ ناز مسیحا ہے مسیحائی کا"

نوحہ سن لیجئے آقاﷺ یہ تمنائی کا

اپنی ندوہ میں کرو ذکر محمدﷺ نے کہا

میرے وارث کا مِرے شیر جلی بھائی کا

نعت سرکارؐ پہ دن رات کہوں میں یا رب

ہو مجھے رزق عطا فکر کی بینائی کا

کتاب حق میں جو تازہ گلاب رکھتے ہیں

کتابِ حق میں جو تازہ گلاب رکھتے ہیں

عقیدہ با خدا وہ ٭مستطاب رکھتے ہیں

سدا درود جو پڑھتے ہیں آلِ احمدﷺ پر

وہ لوگ شب میں رخِ مہتاب رکھتے ہیں

وہی ہیں عبد، خدا کے، بقول شاہِ اُممﷺ

جو دل میں انس، شہِ بُوتراب رکھتے ہیں

تھکا دیا ہے مجھے وقت کی گھڑ سواری نے

 سوچیں گے


تھکا دیا ہے مجھے

وقت کی گھڑ سواری نے

اپنا گھوڑا جنگل میں چھوڑ کر

زمیں کی نرم گھاس پر

اوندھے منہ آرام کی آرزو کو

تنہائی آواز دے رہی ہے

اب دیکھیے کیا شہ کے طرفدار کریں گے

 اب دیکھیے کیا شہ کے طرفدار کریں گے

سنتے ہیں کہ زنداں کو ہوا دار کریں گے

اقلیمِ نباتات کے الجھے ہوئے ریشے

اک بار تو انساں کو خبردار کریں گے

میخیں جو اکھاڑیں گے پہاڑوں کی تو سن لیں

افلاک کے موسم ہمیں بیمار کریں گے

بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے لکھا ہوا سوچا ہوا

 خام کار


بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے

لکھا ہوا

سوچا ہوا

شکلیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں سمجھ نہیں آتا

کس کو کون سا پیرہن چاہیۓ

کس کی کیا شکل ہو

ویرانیوں کے کارواں ہنستے چلے گئے

 ویرانیوں کے کارواں ہنستے چلے گئے

آوازیں میرے حال پہ کستے چلے گئے

تاروں کو کیا خبر کہ محبت کی دھوپ میں

کتنے حسین چہرے جھلستے چلے گئے

وافر نمی نے پُتلیوں کو دلدلی کیا

یوں خواب میری آنکھ میں دھنستے چلے گئے

بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈھتی ہے

 بکھرتی خاک میں کوئی خزانہ ڈھونڈتی ہے

تھکی ہاری زمیں اپنا زمانہ ڈھونڈتی ہے

شجر کٹتے چلے جاتے ہیں دل کی بستیوں میں

تِری یادوں کی چڑیا آشیانہ ڈھونڈتی ہے

بھٹکتی ہے تجھے ملنے کی خواہش محفلوں میں

یہ خواہش خواہشوں میں آستانہ ڈھونڈتی ہے

غم الفت میں ڈوبے تھے ابھرنا بھی ضروری تھا

 غمِ اُلفت میں ڈوبے تھے اُبھرنا بھی ضروری تھا

ہمیں راہِ محبت سے گُزرنا بھی ضروری تھا

حقیقت سامنے آئی بہت حیرت ہوئی مجھ کو

تِرے چہرے سے پردے کا اُترنا بھی ضروری تھا

ہمیں منزل کو پانا تھا تبھی تو راہِ ہستی میں

ہمیں پتھریلے رستوں سے گُزرنا بھی ضروری تھا

وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہو گا

 وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہو گا

کہیں جو خون کو رنگِ حنا تو کیا ہو گا

چمن کی سمت چلا تو ہے کاروانِ بہار

جو راہزن ہی ہوئے رہنما تو کیا ہو گا

حریفِ سیلِ حوادث تو ہے سفینۂ قوم

جو نذرِ موج ہوا نا خدا تو کیا ہو گا

سن لب دریا سے بچے کی صدا آتی ہے

 سن لبِ دریا سے بچے کی صدا آتی ہے

یار اس پانی سے پیاسے کی صدا آتی ہے

پہلے آتا ہے رگوں میں کسی کا پاک لہو

دل میں پھر حیدریؑ نعرے کی صدا آتی ہے

کتنی دلدوز ہے، بس خوف ہے دل چیر نہ دے

رونے والوں میں جو ہنسنے کی صدا آتی ہے

ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا

 ڈھونڈا ہے ہر جگہ پہ کہیں پر نہیں ملا

غم سے تو گہرا کوئی سمندر نہیں ملا

یہ تجربہ ہوا ہے محبت کی راہ میں

کھو کر ملا جو ہم کو وہ پا کر نہیں ملا

دہلیز اپنی چھوڑ دی جس نے بھی ایک بار

دیوار و در ہی اس کو ملے گھر نہیں ملا

چھوٹی ہی سہی بات کی تاثیر تو دیکھو

 چھوٹی ہی سہی بات کی تاثیر تو دیکھو

تھوڑا سا مگر زہر بجھا تیر تو دیکھو

پل بھر میں بکھر جائیں گے مٹی کے گھروندے

بچوں کی مگر حسرتِ تعمیر تو دیکھو

کس کس کے تعاقب میں بھٹکتی رہی آنکھیں

ٹوٹے ہوئے اک خواب کی تعبیر تو دیکھو

جیون گھاٹ پہ ہم اکتاہٹ کا کڑوا پانی پیتے ہیں

 کڑوا پانی


جیون گھاٹ پہ ہم اکتاہٹ کا کڑوا پانی پیتے ہیں

کیسا بڑا مکان ہے جس میں چلتے چلتے عمریں بیتیں

لیکن اس سے باہر تو کیا

دیواروں تک پہنچ نہ پائے

کیسا پھیلا ہُوا زمان ہے جس میں ہمارے

کالے قرنوں والے ہجر اور 

تنہائی نے بہت دور تک میرا پیچھا کیا

 تنہائی


تنہائی نے

بہت دور تک

میرا پیچھا کیا

جب میں اس سے

ہاتھ چھُڑا کر بھاگی تھی

زندگی موت کا اسٹاپ الوداع

 زندگی اب کسی بھی لمحے 

موت کے اسٹاپ پر اتار سکتی ہے

اس سے پہلے کہ موت کا اسٹاپ

دھند میں ڈوب جائے

مجھے سب کو الوداع کہہ دینا چاہئے


صفی سرحدی

تیری گہری سیاہ آنکھوں کو کوئی تخلیق کر نہیں پایا

 کوئی تخلیق کر نہیں پایا


کتنے ہی ٭ریمبرانت آئے یہاں

اور کتنے ہی آئے ٭٭ڈی ونچی

کینوس کو مگر کوئی اک بھی

ایسے رنگوں سے بھر نہیں پایا

تیری گہری سیاہ آنکھوں کو

کوئی تخلیق کر نہیں پایا

وقت بے وقت کی خوشی بھی نہیں

 وقت بے وقت کی خوشی بھی نہیں

اب تو اے یار میں دُکھی بھی نہیں

کچھ تو میں بھی نھیں رہا سائل

اور یہ آپ کی گلی بھی نہیں

وہ تو ہے ہی میرا کُھلا دشمن

دوستی مجھ سے آپ کی بھی نہیں

Thursday 29 July 2021

خوشی سے ماورا ہماری کوکھ میں پلتی اداسی

اداسی


خوشی سے ماورا

ہماری کوکھ میں پلتی اداسی

ایک مکمل وجود رکھتی ہے

انتظار کو ہم اداسی سے مشروط نہیں کر سکتے

کیونکہ اس سمے کسی کے آنے کا عنصر

خوشی کا سبب ہے

اب فقط اک ثانوی کردار بننا چاہتا ہوں

ثانوی کردار


کیا تم نے کبھی دیکھا ہے؟

کہانی کا کوئی ثانوی کردار

گلی کے اندھیرے نکڑ پر

کسی لیمپ پوسٹ تلے

سگریٹ کا دھواں اڑاتا وہ اجنبی

اے تعصب زدہ دنیا ترے کردار پہ خاک

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


 اے تعصب زدہ دنیا تِرے کردار پہ خاک

بغض کی گرد میں لپٹے ہوئے معیار پہ خاک

ایک عرصے سے مِری ذات میں آباد ہے دشت

ایک عرصے سے پڑی ہے در و دیوار پہ خاک

وہ غزالوں سے ابھی سیکھ کے رم لوٹا ہے

بال ہیں دھول میں گم اور لب و رخسار پہ خاک

خواب کا ہمسفر رہا ہوں میں

 خواب کا ہمسفر رہا ہوں میں

مُدتوں در بدر رہا ہوں میں

وہ یہیں آس پاس ہے میرے

اس کو محسوس کر رہا ہوں میں

اس کو پہچانتا ہوں ہر رُخ سے

اس کے نزدیک تر رہا ہوں میں

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے

 پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے

نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا

لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری

لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے

یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے

 یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے

انسان کا انسان گلا کاٹ رہا ہے

دیکھو نہ ہمیں آج حقارت کی نظر سے

یارو! کبھی اپنا بھی بڑا ٹھاٹ رہا ہے

پہلے بھی میسر نہ تھا مزدور کو چھپر

اب نام پہ دیوار کے اک ٹاٹ رہا ہے

یہ میکش کون باصد لغزش مستانہ آتا ہے

 یہ مےکش کون با صد لغزشِ مستانہ آتا ہے

اشارے ہوتے ہیں وہ رونقِ مے خانہ آتا ہے

تمہاری بزم بھی کیا بزم ہے آداب ہیں کیسے

وہی مقبول ہوتا ہے، جو گستاخانہ آتا ہے

کہانی اپنی اپنی اہلِ محفل جب سناتے ہیں

مجھے بھی یاد اک بھولا ہوا افسانہ آتا ہے

صحرا کا خالی جام ہوں مجھ سے گریز کر

 صحرا کا خالی جام ہوں مجھ سے گریز کر

یعنی کہ تشنہ کام ہوں، مجھ سے گریز کر

دیکھو تو دور تک نہیں مجھ میں کوئی شجر

اک دشتِ بے قیام ہوں، مجھ سے گریز کر

تیرا تو نیک نام ہے لوگوں میں، اور میں

رُسوائے خاص و عام ہوں مجھ سے گریز کر

جلوے نہیں ہوتے وہ نظارے نہیں ہوتے

 جلوے نہیں ہوتے، وہ نظارے نہیں ہوتے

جب چاند کے پہلو میں ستارے نہیں ہوتے

ہم اس لیے کرتے ہیں تِرے غم کی پرستش

کانٹوں کے خریدار تو سارے نہیں ہوتے

ساحل کے طلبگار یہ پہلے سے سمجھ لیں

دریائے محبت کے کنارے نہیں ہوتے

پھولوں سے ہو گی دھول جدا دیکھتے رہو

 پھولوں سے ہو گی دھول جدا دیکھتے رہو

منظر نکھار دے گی ہوا، دیکھتے رہو

لائے گی رنگ لغزشِ پا دیکھتے رہو

منزل بھی دے گی اپنا پتا دیکھتے رہو

ہاں بزم میں کسی کے گریبان گوش تک

پہنچے گا میرا دستِ صدا دیکھتے رہو

طاقت صبر ترے بے سر و ساماں میں نہیں

 طاقت صبر تِرے بے سر و ساماں میں نہیں

استقامت اسے اس عالمِ امکاں میں نہیں

ڈھونڈھتا کیا ہے اسے جا کے اِدھر اور اُدھر

کیا تِرے دل میں نہیں دیدۂ حیراں میں نہیں

کیا کہوں آہ میں تشبیہ نہیں دے سکتا

کوئی گل زخم جگر سا تو گلستاں میں نہیں

اک دریدہ علم کی طرح پھڑپھڑاتی ہوئی

 کچھ سنا


اک دریدہ علم کی طرح 

پھڑپھڑاتی ہوئی خواب کی کپکپی سے نکل

اور حقیقت کے آتش کدے میں

دہکتے ہوئے سرخ انگار تاپ

اپنی آنکھوں کو مل، جاگ

دیکھ، اک زمانہ ہمہ تن توجہ

عمر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں

 پڑاؤ


عمر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں

بخت بھر میں تِری مسکراہٹ کی نم ٹھنڈی چھاؤں میں ٹھہرا

تو سمجھا یہاں سے کہیں اور جانا نہیں

سانس سیدھی نہ کی تھی، پسینہ سُکھایا نہ تھا

جب قضا نے مِرے بائیں شانے کو

چابک کے نشتر سے چھیلا

تو وہ چراغ جو ہمہ شب ضوفشاں رہے

 تُو وہ چراغ جو ہمہ شب ضو فشاں رہے

میں وہ دیا کہ شام سے جس میں دھواں رہے

اس واسطے کہ بچھڑیں بھی تو دوست ہی رہیں

کچھ فاصلہ بھی تیرے مِرے درمیاں رہے

میں ایسے اجنبی کی طرح ہوں جہان میں

جس سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا؛ کہاں رہے

مری تقدیر کے لکھے لطیفے کتنے سارے ہیں

 مِری تقدیر کے لکھے لطیفے کتنے سارے ہیں

مِری جیبوں میں پتھر ہیں مِرے ماتھے پہ تارے ہیں

بہت آسان تھا ان کے لیے اس نہر پہ قبضہ

مگر وہ لوگ سچ سے جیتنے کی ضد میں ہارے ہیں

کبھی گھر سے نہیں نکلے کبھی جنگوں پہ جنگیں کی

کبھی مچھر نہیں مارا، کبھی میدان مارے ہیں

گھر مرا تھا نہ وہاں کوئی گلی میری تھی

 گھر مِرا تھا، نہ وہاں کوئی گلی میری تھی

اس جگہ صرف غریب الوطنی میری تھی

یونہی کرتا تھا میں لوگوں سے گِلہ دوری کا

مجھ میں اوروں سے زیادہ تو کمی میری تھی

جتنے چہرے مجھے یاد آئے، اسی کے آئے

وہ جو اک شکل مجھے بھول گئی، میری تھی

پئے عبرت مصور نے بنائی ہیں یہ تصویریں

 پئے عبرت مصور نے بنائی ہیں یہ تصویریں

سروں پر تاج رکھے ہیں تو پیروں میں ہیں زنجیریں

جو ہو عزمِ مصمم تو خدا بھی ساتھ دیتا ہے

مقدر کو بھی تابندہ بنا دیتی ہیں تدبیریں

محبت سے دلوں کوجیتنے کا فن وہ کیا جانیں

ذرا سی بات پر جن کی نکل آتی ہیں شمشیریں

دریا ہے یہ دنیا پگلی اتنی چاہ نہ پال

 دریا ہے یہ دنیا پگلی، اتنی چاہ نہ پال

جتنی سے گاگر بھر جاوے، اتنی آس ہی ڈال

جس حیرت کو چُھو سکتی ہو اس حیرت کے دام

اس منڈی میں جو بھی ہے، سب بکنے والا مال

ہر بھاشا کے اپنے منتر، ہر منتر کے جاپ

کچھ لوگوں کے ہاتھ میں پتھر، کچھ کے ہاتھ کدال

یہ جھاڑن کی مٹی سے میں گر رہی ہوں

 بے پروں کی تتلی


یہ جھاڑن کی مٹی سے

میں گر رہی ہوں

یہ پنکھے کی گھوں گھوں میں

میں گھومتی ہوں

یہ سالن کی خوشبو پہ

میں جھومتی ہوں

مسیحا کی خواہش

 مسیحا کی خواہش


میں چاہتا ہوں 

جب میری روح قبض کرنے

موت کا فرشتہ آئے

تو وہ میرے سامنے

ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے

تیری تصویر اگر بناتے ہم

تیری تصویر اگر بناتے ہم

تیرے بارے میں کیا بتاتے ہم

ڈھونڈنا ہے تجھے اندھیرے میں

اور دِیا بھی نہیں بناتے ہم

آسمانوں کی سمت اُڑتے ہوئے

اپنی دھرتی کے گیت گاتے ہم

محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا

 محبت سے حسیں تر اس جہاں میں اور کیا ہو گا

جو ہو گا، وہ محبت کے نہیں کچھ بھی سوا ہو گا

جہاں والے محبت کو فسانہ ہی سمجھتے ہیں

نہ جانے کب زمانے پر بھلا یہ راز وا ہو گا

جو ہیں اہلِ جنوں واقف ہیں اسرارِ محبت سے

بھلا اہلِ خرد پر راز کیوں کر یہ کھلا ہو گا

مرے طبیب مرے چارہ گر ذرا سن

 مِرے طبیب

مِرے چارہ گر ذرا سن تو

چراغِ درد کی لَو کو ذرا بڑھا دے اور

بڑا اندھیرا ہے

کچھ دیر روشنی کر لیں

غموں کے نُور سے

اہل ظاہر کو فن جلوہ گری نے مارا

 اہلِ ظاہر کو فنِ جلوہ گری نے مارا

اہلِ باطن کو توانا نظری نے مارا

تلخ تھی موت مگر زیست سے شیریں تر تھی

اس سے پوچھو جسے بے بال و پری نے مارا

مندمل ہوتے ہوئے زخم ہرے ہونے لگے

سائے سائے میں تِری ہمسفری نے مارا

گلوں کو بھی تو ہوتی ہے چاہت جناب من

 گلوں کو بھی تو ہوتی ہے چاہت جنابِ من

اڑ جاتی ہے خزاں کی بھی رنگت جناب من

جچتا ہے تجھ پہ طرزِ تکبر یہ ٹھیک ہے

لیکن ہے عشق ہوتا رفاقت جناب من

کیسی عجیب لگتی ہے جیون کی یہ ڈگر

ہوتی ہے رہگزر سے بھی نفرت جناب من

اس شہر سنگ سخت سے گھبرا گیا ہوں میں

 اس شہرِ سنگِ سخت سے گھبرا گیا ہوں میں

جنگل کی خوشبوؤں کی طرف جا رہا ہوں میں

منظر کو دیکھ دیکھ کے آنکھیں چلی گئیں

ہاتھوں سے آج اپنا بدن ڈھونڈھتا ہوں میں

چلا رہا ہے کوئی میرے لمس کے لیے

اندھیاری وادیوں سے نکل بھاگتا ہوں میں

بھیڑ میں ایک شخص کو سب ہی سے ہٹ کے دیکھا تھا

 بھیڑ میں ایک شخص کو، سب ہی سے ہٹ کے دیکھا تھا

دور وہ جا چکا تھا جب، میں نے پلٹ کے دیکھا تھا

آنکھ میں اشک ٹھہرا تھا، لب پہ ہنسی بھی دکھتی تھی

ایسی بھی کشمکش نے تو، دل سے لپٹ کے دیکھا تھا

چہرے پہ چہرہ ہے سجا، کس پہ کریں بھروسہ پھر

چہرہ کُھلی کتاب تھی، میں نے بھی رٹ کے دیکھا تھا

اسی لیے ان کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں

 اسی لیے ان کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں

ہماری آنکھوں میں خواب اوندھے پڑے ہوئے ہیں

شمار کرنا تو خیر ممکن نہیں ہے، تاہم

بہت سے غم ہیں جو الٹے سیدھے پڑے ہوئے ہیں

مِری جدائی سے فرق تو کچھ نہیں پڑا ہے

تمہارے کانوں میں اب بھی جھمکے پڑے ہوئے ہیں

کبھی ساحل تو کبھی سیلِ خطر ٹھہرے گی

 کبھی ساحل تو کبھی سیلِ خطر ٹھہرے گی

بحرِ ہستی میں اگر موجِ سفر ٹھہرے گی

ورطۂ شب سے نکل آئی اگر کشتئ صبح

ساحلِ نور پہ ٹھہرے گی اگر ٹھہرے گی

سینۂ حسن میں پوشیدہ ہے جو آگ ابھی

تیشۂ عشق سے گلرنگ سحر ٹھہرے گی

میں بھی آدمی ہوں زمین کا وہ بھی آدمی ہے خدا نہیں

 میں بھی آدمی ہوں زمین کا، وہ بھی آدمی ہے خدا نہیں

بڑا صوفیانہ سا عشق ہے، اُسے پاس رہ کے چُھوا نہیں

مِرے چارہ گر! مِری زندگی پہ تُو مہرباں ہے بہت مگر

مجھے اس گُنہ کی سزا نہ دے جو گناہ میں نے کِیا نہیں

میں بکھر گیا ہوں تو کیا ہُوا، چلو آپ کا تو بَھلا ہوا

نہ نظر چُرائیے با خدا، مجھے آپ سے تو گِلہ نہیں

اے مکاں یاد ہے کچھ تیرے مکیں کیسے ہیں

 اے مکاں یاد ہے کچھ تیرے مکیں کیسے ہیں

تجھ میں بستے تھے کبھی، اور کہیں کیسے ہیں

بام پر چلتی ہوا، چاند، ستارے، بادل

ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ سارے حسیں کیسے ہیں

ان دریچوں میں جو چلمن سے لگے رہتے تھے

جلوہ آرا ہیں کہاں، پردہ نشیں کیسے ہیں

جب ستاروں کے لیے تیرگی چھٹ جاتی ہے

 جب ستاروں کے لیے تیرگی چھٹ جاتی ہے

روشنی اونچے محلات میں بٹ جاتی ہے

پاس آنے سے مجھے روکا گیا دے کے مثال

زوم کرنے پہ تو تصویر بھی پھٹ جاتی ہے

خواب نعمت ہیں مِرے واسطے زندان میں یوں

گھوم پھر لیتا ہوں زنجیر بھی کٹ جاتی ہے

روگ جی جان کو لگایا ہوا

 روگ جی جان کو لگایا ہُوا

زنگ اوسان کو لگایا ہوا

ایک اٹکا ہوا ہے پنجرے میں

ایک پر، دھیان کو لگایا ہوا

چکھ یہ مہکا ہوا قوامِ خیال

شام کے پان کو لگایا ہوا

کسی کو جاب ملی ہے نہ گھر دئیے گئے ہیں

 کسی کو جاب ملی ہے نہ گھر دئیے گئے ہیں

ہمارے خواب سوئے دار کر دئیے گئے ہیں

کہاں کا پوچھ رہے ہو، نئی ریاست میں

پرانے نام تو تبدیل کر دئیے گئے ہیں

وہ شخص قدرتی حالت میں خوبصورت تھا

مگر جو فالتو کچھ رنگ بھر دئیے گئے ہیں

زندگی پھیر کے پھینک آتا ہے سر سے مزدور

 زندگی پھیر کے پھینک آتا ہے سر سے مزدور

اس وبا میں بھی نکل آتا ہے گھر سے مزدور

یہ الگ بات کہ جینا بھی ہے مشکل اس کا

بھاگتے دیکھا نہیں موت کے ڈر سے مزدور

ایسے حالات بھی پیدا نہ کر اے مل مالک

تجھ کو محروم نہ کر دے تِرے زر سے مزدور

کچھ عورتیں جو مارچ میں نہیں آ سکیں

 کچھ عورتیں جو مارچ میں نہیں آ سکیں


وہ اک ہاتھ میں اپنا بچہ اٹھائے

تو دُوجی ہتھیلی پہ عصمت دھرے

یہی کُل اثاثہ لیے

ایک پارۂ نان و نمک کے عوض بیچنے کو کھڑی ہے

کہیں پاس ہی سے اک آواز آتی ہے

ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں

 ہے آسیبوں کا سایا میں جہاں ہوں

شبِ دشتِ بلا میں بے اماں ہوں 

ہوا کی زد پہ جیسے شمع کی لو 

میں اپنے حوصلوں کا امتحاں ہوں 

چراغاں سا ہے دروازے پہ لیکن 

میں اندر سے کوئی تیرہ مکاں ہوں 

چلتا ہوں دوستو آپ جانب صلیب کی

 چلتا ہوں دوستو! آپ جانب صلیب کی

منصف نے مانگ لی ہے گواہی رقیب کی

چپکے سے چل دیا ہے، بتایا بھی کچھ نہیں

اک بے بسی تھی نظروں میں میرے طبیب کی

وہ ہاتھ کٹ گیا ہے کل آ کر مشین میں

مزدور کی تھیں جس پہ لکیریں نصیب کی

لیتا ہوں تیرا نام ہر اک نام سے پہلے

 لیتا ہوں تیرا نام ہر اک نام سے پہلے

کچھ ذکر نہیں کرتا ہوں اس کام سے پہلے

منزل کی صعوبت کبھی آزار نہ ہو گی

میں نام تِرا لیتا ہوں ہر گام سے پہلے

ہے عشق کا آغاز ہی انجام کا حاصل

انجام نظر آتا ہے انجام سے پہلے

رزق کی تلاش اور بھیک

 رزق


رات اسٹریٹ لائیٹ کی روشنی میں

ایک چیونٹی رزق ڈھونڈ رہی تھی

مگر میں فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا

بھیک مانگ رہا تھا


صفی سرحدی

بہت اداس طبیعت ہے اب چلے آؤ

 بہت اداس طبیعت ہے اب چلے آؤ

یہ وقت ایک اذیت ہے اب چلے آؤ

تمہارے بعد ہمیں زندگی سے کیا لینا

یہ زندگی بھی مصیبت ہے اب چلے آؤ

کہو تو دور سے اک دوسرے کو دیکھیں گے

یہی تو صاف سی نیت ہے اب چلے آؤ

چراغ دنیا کے سارے بجھا کے چلتا ہوں

 چراغ دنیا کے سارے بجھا کے چلتا ہوں

اندھیری رات میں اک دل جلا کے چلتا ہوں

دکھائی دیتا ہے دروازۂ فنا مجھ کو

میں سب حجاب نظر سے اٹھا کے چلتا ہوں

دکھائی دیتے ہیں سارے خزانے دھرتی کے

میں سارے سنگ رہوں کے ہٹا کے چلتا ہوں

وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے

 وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے

مزے ہم محبت کے پانے لگے

رہا یاد ہم کو نہ کچھ بھی نصر

سوا ان کے سب بھول جانے لگے

پلا کر ہمیں جامِ الفت وہ پھر

ترانے وفا کے سنانے لگے

اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا

 اف وہ اک حرف تمنا جو ہمارے دل میں تھا

ایک طوفاں تھا کہ برسوں حسرت ساحل میں تھا

رفتہ رفتہ ہر تماشا آنسوؤں میں ڈھل گیا

جانے کیا آنکھوں نے دیکھا اور کیا منزل میں تھا

داستان غم سے لاکھوں داستانیں بن گئی

پھر بھی وہ اک راز سر بستہ رہا جو دل میں تھا

رندوں کے اس جہان سے نکلا ہوا ہوں میں

 رندوں کے اس جہان سے نکلا ہوا ہوں میں

یعنی تِرے گمان سے نکلا ہوا ہوں میں

اک دشت کر رہا ہے مِری دیکھ بھال یار

اک شخص کی امان سے نکلا ہوا ہوں میں

تُو کہہ رہا ہے یار کا ہی در گیا ہے بس

مجھ کو لگے جہان سے نکلا ہوا ہوں میں

Wednesday 28 July 2021

کوئی متاع زیست نہ ہی سنسار کی طلب

 کوئی متاع زیست نہ ہی سنسار کی طلب

دل کو رہی نہ اب کسی شاہکار کی طلب

ہوتا ہے بپا روز یہاں حشر کا منظر

کرتا ہے کون حشر کے آزار کی طلب

اس دور میں تقاضۂ انصاف و عدل خوب

جیسے کہ بزمِ رنگ و مئے افکار کی طلب

غم کا بھیڑیا نگل نہ جائے

 غم کا بھیڑیا نِگل نہ جائے

درد حدوں سے نکل نہ جائے

دل کی شیریں تنہا رہ گئی

ہجر کا تیشہ چل نہ جائے

جا کے کوئی زنجیر ہِلاؤ

دل مُنصف کا بدل نہ جائے

چراغ نیم کشتہ کے تلے جو غم کے سائے ہیں

 چراغ نیم کشتہ کے تلے جو غم کے سائے ہیں

یقیں سے بے گمانی تک یہ میرے ساتھ آئے ہیں

تِری محفل سے ہم اے زندگی! کیا دادِ غم پاتے

یہی بے درد یادیں ہیں جنہیں ہم ساتھ لاتے ہیں

زمانہ خود ہی سوچے گا کہ کیا منسوب ہے کس کو

جو بے عنوان افسانے تمہیں ہم نے سنائے ہیں

تیری ذات پاک عظیم ہے تو میری خطاؤں کو بخش دے

عارفانہ کلام حمدیہ کلام


تیری ذاتِ پاک عظیم ہے، تُو میری خطاؤں کو بخش دے

تُو غفور ہے، تُو رحیم ہے، تو میری خطاؤں کو بخش دے

تیری کائنات کی وسعتوں میں میں ایک ذرۂ بے نشاں

میری لغزشوں کا علیم ہے، تو میری خطاؤں کو بخش دے

میں بُھلا کے تیرے کلام کو، فقط ابتلائے گناہ رہا

تیری مِلک خلدِ نعیم ہے، تو میری خطاؤں کو بخش دے

زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا پیام آیا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


زہے مقدر حضورِﷺ حق سے سلام آیا، پیام آیا

جھکاؤ نظریں، بچھاؤ پلکیں، ادب کا اعلیٰ مقام آیا

یہ کون سر سے کفن لپیٹے، چلا ہے الفت کے راستے پر

فرشتے حیرت سے تک رہے ہیں یہ کون ذی احترام آیا

فضا میں لبیک کی صدائیں، ز فرش تا عرش گونجتی ہیں

ہر ایک قربان ہو رہا ہے، زباں پہ یہ کس کا نام آیا

بخت خفتہ نے مجھے روضے پہ جانے نہ دیا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


بختِ خفتہ نے مجھے روضے پہ جانے نہ دیا

چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا

آہ قسمت، مجھے دنیا کے غموں نے روکا

ہائے، تقدیر کہ طیبہ مجھے جانے نہ دیا

پاؤں تھک جاتے اگر پاؤں بناتا سر کو

سر کے بل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا

راہوں میں تری طور کے آثار ملے ہیں

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


راہوں میں تِری طُور کے آثار ملے ہیں

ذروں کے جگر مطلعِ انوار ملے ہیں

تاروں میں تِرے حسنِ تبسم کی ضیاء ہے

پھولوں کی مہک میں تِرے آثار ملے ہیں

معراج کی شب سرحدِ امکاں سے بھی آگے

نقشِِ قدمِ احمدﷺ مختار ملے ہیں

خدا کا خاص بشر پہ انعام سجدے ہیں

 عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ


خدا کا خاص بشر پہ انعام سجدے ہیں

عشق کا ایک مکمل نظام سجدے ہیں

رابطہ عرش سے سر اپنا زمیں پر رکھ کر

بندگی کا تو حسیں انتظام سجدے ہیں

میں گناہ گار علیؑ کا جو مقابل سوچوں

وہ جس کی ضرب پہ صدقے تمام سجدے ہیں

ہم مطلع وحشت پہ چمکتے ہوئے تارے

ہم مطلعِ وحشت پہ چمکتے ہوئے تارے 

کوئی تو کسی سمت سے اے دوست پُکارے 

اس دشتِ تغافل میں ہے بس تیرا سہارہ

اے عشق مِرے دوست مجھے جان سے پیارے

اک بحرِ تمنّا ہے میں ساحل پہ کھڑا ہوں 

کوئی تِرے لہجے میں مِرا نام پُکارے

خدا رونے لگا؟

  اس درندے نے جب کلی کو مسل دیا

تو رُوئے زمین پر بوجھ بننے والی

اپنی گندی شلوار باندھ کر

جب وہ حرامی گھر جانے لگا

تو اس نے خود سے کہا

آج تو کچے گوشت کا مزہ آ گیا

ہر بات پر سوال محبت پہ خاک ڈال

 ہر بات پر سوال، محبت پہ خاک ڈال

غم کوئی بھی نہ پال محبت پہ خاک ڈال

آتا تھا مجھ سے ملنے وہ ہر روز خواب میں

گزرے ہیں ماہ و سال محبت پہ خاک ڈال

محدود ہیں فقط یہ ہوس تک محبتیں

سب نے بچھائے جال محبت پہ خاک ڈال

وبا کے موسموں میں جب یہ سارا شہر

 وبا کے موسموں میں

جب یہ سارا شہر

تنہائی کی چادر اوڑھ لے گا

میں تب بھی

ہاتھ میں قربت کا پرچم تھام کر

گلیوں میں تیرے وصل کے نعرے لگاؤں گا

تو نے کچھ دیر کو ٹھیرنے سوچنے کا اشارہ دیا

 جانے کیا دوڑ تھی


تُو نے کچھ دیر کو

ٹھیرنے، سوچنے کا اشارہ دیا

یا خدا شکریہ

دائیں بائیں سبھی سگنلوں پر جو سرخی کا ہالہ بنا

اُس نے اِس بھاگتی، اپنے رستے کی ہر چیز کو روندتی

تیز رفتار دنیا کو ٹھیرا دیا

سمے کے ہاتھ لگ جائیں تو سپنے ٹوٹ جاتے ہیں

 سمے کے ہاتھ لگ جائیں تو سپنے ٹوٹ جاتے ہیں

زیادہ دیر رکھنے سے بھروسے ٹوٹ جاتے ہیں

کہاں تک روک سکتی ہیں کسی انسان کی پلکیں

کہ پانی زور پر آئے تو پشتے ٹوٹ جاتے ہیں

میں خود جاں کے پھپھولے تازہ رکھنے کی سعی میں ہوں

سنا ہے زخم بھر جائیں تو وعدے ٹوٹ جاتے ہیں

کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر تنہا کھڑی

 بنجر زمیں کا خواب


کئی صدیوں سے صحرا کی سلگتی ریت پر 

تنہا کھڑی میں سوچتی ہوں

نہیں کوئی نہیں ہے

نہیں کوئی نہیں ہے جو مِرے اندر بلکتی خامشی کو 

تھپکیاں دے کر سُلا ڈالے

اس نے پھینکا تھا اگرچہ بڑی اونچائی سے

 اس نے پھینکا تھا اگرچہ بڑی اونچائی سے

مرحلہ وار نکل آیا ہوں گہرائی سے 

راز مرغابی کی ہجرت کا کُھلا ہے مجھ پر 

ایک تالاب کے چہرے پہ جمی کائی سے 

شام کا وقت بڑی دیر تلک ٹھہرا رہا 

میں سسکتے ہوئے لڑتا رہا تنہائی سے 

تو کیا یہ ایک گھٹیا ذہانت نہیں ہوئی

 تو کیا یہ ایک گھٹیا ذہانت نہیں ہوئی

بیٹی ہمارے واسطے رحمت نہیں ہوئی

جو لوگ کہہ رہے ہیں غریبی عذاب ہے

یہ لوگ وہ ہیں جن کو محبت نہیں ہوئی

مجبوری میں رقیب ہی بننا پڑا مجھے

محبوب رہ کے میری جو عزت نہیں ہوئی

دل توڑتا ہے اور بکھرنے نہیں دیتا

 دل توڑتا ہے اور بکھرنے نہیں دیتا

بے رحم مسیحا مجھے مرنے نہیں دیتا

اے جانِ تمنا! تیری زلفوں کا تصور

کاندھوں سے سیہ شال اُترنے نہیں دیتا

چاندی سی وہ رنگت، نہ ستاروں سی وہ آنکھیں

یہ ہجر خد و خال سنورنے نہیں دیتا

رخ پہ زلفوں کا خوب ڈیرہ ہے

 رخ پہ زلفوں کا خوب ڈیرا ہے

تیرگی میں چھپا سویرا ہے

میں بھی بد نام ہو گئی آخر 

اس میں سارا قصور تیرا ہے

ساتھ تیرے ہجوم لوگوں کا

کیسے کہہ دوں فقط تُو میرا ہے

گر ہو ہمت تو راستہ نہیں کچھ

 گر ہو ہمت تو راستہ نہیں کچھ

بیچ میں ہے جو فاصلہ نہیں کچھ

یعنی بس اس کو دیکھتا ہوں میں

یعنی اب اور دیکھتا نہیں کچھ

کیسے دریا تھے میرے اندر بھی

اب تو بس ریت کے سوا نہیں کچھ

چوکیدار ایک سافٹ ڈرنک کی قیمت میں

 چوکیدار


ایک سافٹ ڈرنک کی قیمت میں

دسمبر کی سردی میں

جب ہمیں اپنے بستر سے

دروازے تک جانا

نا ممکن لگتا ہے

سخن کا پیرہن پہنا دیا کس نے خموشی کو

 سخن کا پیرہن پہنا دیا کس نے خموشی کو

ترستی ہے زباں گونگے دلوں کی گرمجوشی کو

ہوئے آرائشِ جاں کی بدولت کو بہ کو رسوا

کہ عریانی سمجھتے ہیں ہم اپنی جامہ پوشی کو

جب اپنا دم گھٹا ہر دم فصیلِ شہر کے اندر

نکل آئے ہیں صحراؤں میں ہم خانہ بدوشی کو

اس شہر ستم گر کی کیا خوب علامت ہے

 اس شہرِ ستم گر کی کیا خوب علامت ہے

پھولوں پہ ہے پابندی خوشبو کی تجارت ہے

حاکم بھی یہاں جھوٹا، منصف بھی بِکاؤ ہے

رشوت کا چلن ہر سُو اور جُھوٹی عدالت ہے

مظلوم کو پھانسی ہے، ظالم کی رہائی ہے

مقتول تہِ ذِلت،۔ قاتل پہ عنایت ہے

آدھی رات کو شہر کی خالی سڑک پر

 مسترد احسان


آدھی رات کو

شہر کی

خالی سڑک پر

شہر کا نیا بھکاری

خدا کو

گالیاں دیتے ہوئے

پاک دامنی کا ٹیسٹ شادی کی پہلی رات (صرف بالغوں کے لیے)

 پاک دامنی کا ٹیسٹ


شادی کی پہلی رات کو

لوڈ شیڈنگ کے باعث

دُلہے نے ٹارچ آن کر لیا

اور دُلہن کی اندام نہانی کو

کھول کر بغور جائزہ لینے لگا

غیرت مند دُلہا پاس ہوا

پھر اسی بت سے محبت چپ رہو

 پھر اسی بت سے محبت چُپ رہو

اور پھر اس پر شکایت چپ رہو

چشمِ پُر نم! تھم کے اب میری سنو

عشق میں یہ کیسی عجلت چپ رہو

کوئی حسرت گر بکھر جائے بھی تو

جان کر یا رب کی حکمت چپ رہو

عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

 عاشق جو اس گلی کا بھی مر کر چلا گیا

دنیا سے ایک اور قلندر چلا گیا

غربت کا اپنے حال تجھے اور کیا کہوں

اک دن تو اک فقیر بھی اٹھ کر چلا گیا

فرعون اپنے دور کا زندہ ہے آج بھی

دنیا سمجھ رہی تھی ستم گر چلا گیا

کوئی کر سکتا ہے یارو جیسا میں نے کام کیا

 کوئی کر سکتا ہے یارو! جیسا میں نے کام کیا

یار کے ذمے دی کر نیکی اپنے تئیں بدنام کیا

آنکھوں سے سہلایا کِیا میں تلوے اس کے وقتِ خواب

اتنی خدمت دیکھ مِری گھر غیر کے جا آرام کیا

کون سی شب بے نالہ و زاری میں نے نہیں کی اس بِن صبح

کون سا دن بے رنج و مصیبت میں نہ رو رو شام کیا

دل میں کسی کو رکھو دل میں رہو کسی کے

 دل میں کسی کو رکھو دل میں رہو کسی کے

سیکھو ابھی سلیقے کچھ روز دلبری کے

فرقت میں اشک حسرت ہم کیا بہا رہے ہیں

تقدیر رو رہی ہے پردے میں بے کسی کے

آئے اگر قیامت تو دھجیاں اڑا دیں

پھرتے ہیں جستجو میں فتنے تِری گلی کے

دیکھو تمہارے ہجر سے چھایا خمار تھا

 دیکھو، تمہارے ہجر سے چھایا خمار تھا

دیکھو، تمہارا وصل ہی اس کا اُتار تھا

اشکوں نے دل کی حالتِ نا گفتہ بہ کہی

لفظوں پہ جب زباں کا نہ کچھ اختیار تھا

نفرت کے خارزار ہیں جس سمت دیکھیے

یہ شہر چاہتوں کا کبھی لالہ زار تھا

سنو جاناں مجھے تم سے بس ایک بات کہنی ہے

 خود کو سمجھا لو


سنو جاناں

مجھے تم سے بس

ایک بات کہنی ہے

اور وہ بات تم کو یاد رکھنی ہے

کہ تم خوابوں میں میرے

اس طرح نہیں آیا کرو

رہا دربدر پھرا کو بکو

 رہا در بدر، پھرا کُو بکُو

رہی عمر بھر یہی آرزو

ملے مجھ کو بھی کوئی ہم نفس

کوئی مہ جبیں، کوئی خوبرو

نہ میں کہہ سکا مِرا حالِ دل

نہ ہی ہو سکی کوئی گفتگو

پتھروں سے نہ کبھی ٹوٹ کے الفت کرنا

 پتھروں سے نہ کبھی ٹُوٹ کے الفت کرنا

جسم شیشے کا نہیں پھر بھی حفاظت کرنا

اب نہ چُھو لینا کبھی پُھول سے رُخساروں کو

اُنگلیاں اپنی جلانے کی نہ زحمت کرنا

جُھکنے دینا نہ کسی پیڑ کی شاخوں کا غرور

ڈھلتے سُورج سے ذرا سی تو مروت کرنا

Tuesday 27 July 2021

صحبت شب کا طلبگار نہ ہو گا کوئی

 صحبتِ شب کا طلبگار نہ ہو گا کوئی

خوف اتنا ہے کہ بیدار نہ ہو گا کوئی

دھوپ ہر سمت سے نکلی تو کہاں جاؤ گے

دشت میں سایۂ دیوار نہ ہو گا کوئی

حرفِ احساس بھی جل جائے گا ہونٹوں کی طرح

مُدعا قابلِ اظہار نہ ہو گا کوئی

یہ عشق اگر ایسا پراسرار نہ ہوتا

 یہ عشق اگر ایسا پُر اسرار نہ ہوتا 

منصور کبھی کوئی سر دار نہ ہوتا 

زنجیر زنی ہوتی نہ ہر سانس میں میری 

دل درد کا ایسے جو علمدار نہ ہوتا 

پھر چاند نہیں کرتا کبھی اشک فشانی 

گر ٹُوٹے ستاروں کا عزادار نہ ہوتا 

لفظوں کا یہ خزانہ ترے نام کب ہوا

 لفظوں کا یہ خزانہ تِرے نام کب ہوا

یہ شعر کب کہے تجھے الہام کب ہوا

یہ بات ٹھیک ہے کہ مجھے دام کم ملے

چپکے سے بک گیا ہوں میں نیلام کب ہوا

کیسی شراب ہوں کہ ہے تشنہ مِرے ہی لب

اپنے لیے میں درد تہِ جام کب ہوا

آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو

 آئے ہو تو مرضی سے تم جا سکتے ہو

اور چاہو تو مُڑ کر واپس آ سکتے ہو

دور اداسی کرنی ہو تو شوق سے تم

کمرے میں میری تصویر لگا سکتے ہو

یہ اندھوں کا کھیل ہے پیارے تم اس میں

با آسانی ہر کردار نبھا سکتے ہو

عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے

 عیش ہی عیش ہے نہ سب غم ہے

زندگی اک حسین سنگم ہے

جام میں ہے جو مشعلِ گلرنگ

تیری آنکھوں کا عکسِ مبہم ہے

اے غمِ دہر کے گرفتارو

عیش بھی سرنوشتِ آدم ہے

بچھڑنا تھا تو پھر کوئی طریقہ بھی تو رکھنا تھا

 بچھڑنا تھا تو پھر کوئی طریقہ بھی تو رکھنا تھا

دوبارہ لوٹ کر آنے کا رستہ بھی تو رکھنا تھا

اسے پانے کی خواہش میں دعائیں بھی تو کرنا تھیں

زباں پر ہر گھڑی کوئی وظیفہ بھی تو رکھنا تھا

اسے دیکھے بنا تم نے محبت اس سے کر ڈالی

تصور میں کسی صورت کا نقشہ بھی تو رکھنا تھا

لب ہلے خوف سے توبہ کی صدا پھوٹ پڑی

 لب ہلے، خوف سے توبہ کی صدا پھوٹ پڑی

ہم خدا بھول چکے تھے کہ وبا پھوٹ پڑی

صرف اک دانۂ گندم سے خدا نے روکا

اور اس خاک کے پتلے سے خطا پھوٹ پڑی

آپ کا ساتھ اندھیرے میں بڑی نعمت ہے

کتنے متروک چراغوں سے ضیا پھوٹ پڑی

صدیوں سے نیند کو ترستی میری آنکھیں

 اسم


صدیوں سے نیند کو ترستی میری آنکھیں

مجھے وقت کی آواز سننی چاہیۓ تھی

لیکن بھروسے کا کیا ہوتا

میں نے اپنے تئیں جنت کھوجی

اور اپنی نسل کو راحتوں سے آشنا کیا

لیکن سائے موجود رہے

نہ جانے کیسے مٹے گی یہ آپسی رنجش

 نہ جانے کیسے مٹے گی یہ آپسی رنجش

ہمارے گھر میں چلی آئی باہری رنجش

ہزاروں سائے تو اک پیڑ کے نہیں ہوتے

مِری تو فہم سے باہر ہے مسلکی رنجش

سبھی کی ایک ہی منزل ہے آؤ مل کے چلیں

فنا نصیبو! کہاں تک یہ باہمی رنجش؟

قرار دل کو ملا تیرے مسکرانے سے

 قرار دل کو ملا تیرے مسکرانے سے 

بنی تھی جاں پہ مِری تیرے روٹھ جانے سے 

تسلی جھوٹی نا دے دل میں کیا ہے یہ کہہ دے 

یہ خواب لمحے چُرا وقت کے خزانے سے

سنہری گھڑیاں بھی آخر تو بیت جاتی ہیں 

یہ قید ہوں گی فقط لب پہ بات آنے سے 

گنتی کے مرے یار ہیں اور یار بھی کتنے

گنتی کے مِرے یار ہیں اور یار بھی کتنے

چھوٹی سی کہانی کے ہوں کردار بھی کتنے

منکر کو وضاحت کے تکلّف کی ضرورت ؟

تھوڑے سے تو انکار ہیں، انکار بھی کتنے

ہم وقف ہیں اور سارے اداسی کے لیے ہیں

اور اس پہ ہمہ وقت ہیں بے زار بھی کتنے

کئی سوال مچلتے ہیں ہر سوال کے بعد

 کئی سوال مچلتے ہیں، ہر سوال کے بعد

شبِ وصال سے پہلے، شبِ وصال کے بعد

نجانے کیوں یہ میرا دل دھڑکنے لگتا ہے

تیرے خیال سے پہلے، تیر ے خیال کے بعد

ہر ایک داؤ سے واقف ہیں اے مرے ہمدم

تمہاری چال سے پہلے، تمہاری چال کے بعد

بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف

 بلا رہا ہے مجھے آسماں تمہاری طرف

جلا کے نکلا ہوں سب آشیاں تمہاری طرف

میں جانتا ہوں کہ سارے جہاں ہیں ختم یہاں

مجھے ملے گا نہ کوئی جہاں تمہاری طرف

خموشیوں کا بس اک سلسلہ ہے دور تلک

نہ کوئی لفظ نہ کوئی زباں تمہاری طرف

ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت

 ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت

یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت

نامِ والا تِرا اے کاش، مثالِ مجنوں

ریگ پر انگلیوں سے لکھوں قلم کی صورت

خواب میں بھی نہ نظر آئے اگر تم چاہو

درد و غم رنج و الم ظلم و ستم کی صورت

آج قابو میں یہ مزاج نہیں

 آج قابو میں یہ مزاج نہیں

بے خودی کا کوئی علاج نہیں

وقت آخر ہے میرا جاؤ طبیب

اب دوا کی تو احتیاج نہیں

عہد میں میرے شاہ خوباں کے

ستم و ظلم کا رواج نہیں

زندگی کس سے وفا کرتی ہے

 زندگی کس سے وفا کرتی ہے

سانس بھی گن کے عطا کرتی ہے

عشق بھی کیا ہے کہ دھڑکن دھڑکن

دل کے لٹنے کی دعا کرتی ہے

لفظ بھی کاٹ کے رکھ دیتا ہے

بات بھی حشر بپا کرتی ہے

سجائیں محفل یاراں نہ شغل جام کریں

 سجائیں محفلِ یاراں نہ شغلِ جام کریں

تو اور کیسے تِرے غم کا احترام کریں

کسے بلائیں چناروں میں آدھی رات گئے

اگر کریں تو کسے صبح کا سلام کریں

بسائیں قاف تصور میں اک پری وش کو

کچھ آج عشرتِ ہجراں کا اہتمام کریں

اب آ گئی ہے ذرا آب و تاب آنکھوں میں

 اب آ گئی ہے ذرا آب و تاب آنکھوں میں

بسا ہے یوں تِرا عکس شباب آنکھوں میں

بہ شکلِ دریا نظر آ رہا ہے صحرا بھی

رواں ہی رہتی ہے موجِ سراب آنکھوں میں

کہا تو تھا نہ نظر بھر کے دیکھ دُنیا کو

اُتر گیا ہے نا آخر عذاب آنکھوں میں

میں شکل دیکھ کے کیسے کہوں کہ کیا ہو گا

 میں شکل دیکھ کے کیسے کہوں کہ کیا ہو گا

حسین شخص ہے ممکن ہے بے وفا ہو گا

تمہیں خیال بھی آیا سفر پہ جاتے ہوئے

تمہارے بعد ہمارا یہاں پہ کیا ہو گا؟

میں جھوٹ بول کے آیا تھا واپسی کا جسے

وہ شخص اب بھی مِری راہ دیکھتا ہو گا

دلوں میں خشک سالی ہو گئی ہے

 دلوں میں خشک سالی ہو گئی ہے

محبت بھی سوالی ہو گئی ہے

کسی کے ہاتھ پیلے کیا ہوئے ہیں

مِری تقدیر کالی ہو گئی ہے

مزاجاً بھی قلندر ہو گیا ہوں

طبیعت بھی دھمالی ہو گئی ہے

کام ٹھپ ہے ادب کی کان میں کیا

 جون ایلیا کی زمین میں مزاحیہ غزل


کام ٹھپ ہے ادب کی کان میں کیا؟

پڑ گئی پھوٹ ورکران میں کیا؟

اک خلائی شٹل اڑانے کی

قابلیت ہے کوچوان میں  کیا؟

دشت میں بھی تِرے پلازے ہیں

قیس تھا تیرے خاندان میں کیا؟

عشق میں سہولت کیا

 عشق میں سہولت کیا

آدمی کو مہلت کیا

عمر بھر رواں رہتی

آپ کی عنایت کیا

وصل سے تو بہتر ہے

ہجر سے عداوت کیا

محبت کی ہوائے دلربا سے جھوٹ بولے گی

 محبت کی ہوائے دل ربا سے جھوٹ بولے گی

حسیں کاذب ہے وہ اہلِ وفا سے جھوٹ بولے گی

وہ اک اک جھوٹ جھٹلانے کو سو سو جھوٹ بولے گی

وہ خود سے جھوٹ بولے گی خدا سے جھوٹ بولے گی

مِرے معصوم سچ کو کچہری میں لا کھڑا کر کے

کوئی دیکھے کہ وہ کس کس ادا سے جھوٹ بولے گی

خاک فردا سے عورت بنا دی گئی

 خاکِ فردا سے عورت بنا دی گئی

اور پھر آدمی کو دکھا دی گئی

میری گھونگھٹ میں تصویریں کھینچی گئیں

بعد میں میری چندری جلا دی گئی

ٹیکا، جھومر سے مجھ کو سجایا گیا

اصلی صورت ہی میری چھپا دی گئی

شرط خاموشی سے ہارے وہ بھی

شرط خاموشی سے ہارے وہ بھی

میں نہ بولوں تو پکارے وہ بھی

خوشدلی سے کوئی جا کر کہہ دو

کچھ نہ کچھ نذر گزارے وہ بھی

جن سے تھی راہِ تعلق روشن

ڈوبنے کو ہیں ستارے وہ بھی

بھاری ہے غم کی رات کوئی اور بات کر

 بھاری ہے غم کی رات کوئی اور بات کر

سن اے شکستِ ذات! کوئی اور بات کر

مجھ سے تُو پوچھتا ہے مِری زندگی کا حال

اے گم شدہ حیات! کوئی اور بات کر

ملتا نہیں ہے جو بھی بچھڑتا ہے ایک بار

چل، شہرِ ممکنات! کوئی اور بات کر

سہمے تخیلات کو اذن بیان دے

 سہمے تخیّلات کو اذنِ بیان دے 

شعروں میں درد ڈھال زمینوں کو جان دے

اپنے مقام و منصب و منشور کو سمجھ

تھوڑا سا اس طرف بھی مِری جاں دھیان دے

سستا سمجھ کے چھوڑ دیا جائے گا تجھے

بہتر ہے اپنی ذات کو تھوڑا سا مان دے

خود نمائی عمر بھر کا قہر ہے

 خود نمائی عمر بھر کا قہر ہے

میرے ہونٹوں پر سخن کا زہر ہے

دل دھڑکتا ہے مِرے کانوں کے پاس

اور خوابیدہ یہ سارا شہر ہے

ان کھلی آنکھوں کی پنہائی میں آج

منظرِ عقدہ کشائے دہر ہے

تجھ سے پہلی سی وفا کون کرے گا

  تجھ سے پہلی سی وفا کون کرے گا

بعد میرے یہ خطا کون کرے گا

کس پہ ہو گی تِری وہ مشقِ ستم اب

ظلم تیرے یوں سہا کون کرے گا

ترکِ الفت نہیں اچھی یہ تو سوچو

عہدِ الفت کو وفا کون کرے گا

اس کا نیزہ تھا اور مرا سر تھا

 اس کا نیزہ تھا اور مِرا سر تھا

اور اک خوش گوار منظر تھا

کتنی آنکھوں سے ہو کے گزرا وہ

اک تماشہ جو صرف پل بھر تھا

دل کے رشتوں کی بات کرتے ہو

ایک شیشہ تھا ایک پتھر تھا

میں کوئی بھکشو تو نہیں جو تمہارے کارن

 میں کوئی بھکشو تو نہیں


میں کوئی بھکشو تو نہیں

جو تمہارے کارن

جنگل جنگل بھٹکنے نکل جاؤں گا

میں ایک سنیاسی بھی نہیں

جو روگ میں تمہارے

کسی ویرانے میں یوگ لے کر

تلخیٔ نو شکر آمیز ہوئی جاتی ہے

تلخیٔ نو شکر آمیز ہوئی جاتی ہے

زندگی اور دلآویز ہوئی جاتی ہے

کس نے لفظوں پہ یہ چپکے سے کمندیں پھینکیں

جو زباں ہے وہ کم آمیز ہوئی جاتی ہے

دستِ قاتل میں نظر آتی ہے اک شاخِ گلاب

زندگی پھر بھی تو خونْریز ہوئی جاتی ہے

ابھی میں برف سے لپٹے ہوئے جزیرے پر

 بے نام سلسلے


ابھی میں برف سے لپٹے ہوئے جزیرے پر

خود اپنے آپ سے ملنے کی آرزو لے کر

لگا ہوا ہوں سویرے کو شام کرنے میں

سمندروں میں ابھرتے بھنور بلاتے ہیں

افق سے آتی صدائیں بھی کھینچتی ہیں مگر

میں اپنی سوچ سے باہر نکل نہیں سکتا

کھنڈر میں دفن ہوئی ہیں عمارتیں کیا کیا

 کھنڈر میں دفن ہوئی ہیں عمارتیں کیا کیا

لکھی ہیں کتبۂ دل پر عبارتیں کیا کیا

حصارِ برف میں رہنا کبھی سرابوں میں

سفر کے شوق نے سونپی سفارتیں کیا کیا

تلاشِ لفظ میں عمروں کی کاوشوں کا ثمر

اندھیرے غار میں گُھومیں بصارتیں کیا کیا

چپ رہوں کیسے میں برباد جہاں ہونے تک

 چپ رہوں کیسے میں برباد جہاں ہونے تک

راز کو راز ہی رکھنا ہے بیاں ہونے تک

کیا خبر تھی تِری محفل میں یہ حالت ہوگی

تُو اٹھا دے گا مجھے درد عیاں ہونے تک

خوش نصیبی یہ مِری ہے کہ وہ گھر آئے ہیں

شمع تُو ساتھ نبھا وقتِ اذاں ہونے تک

سکھی مزار کے حجرے میں کیا جھانک رہی ہے

 ہمزاد


سکھی! مزار کے حجرے میں کیا جھانک رہی ہے

تُو بھی وہ دیکھے گی جو میں نے دیکھا ہے؟

وہی تنفس، سرپٹ گھوڑے ہانپے والے

ہولے ہولے کانپنے والے

حجرے کی دیوار پہ جب دو سائے ایک بنیں گے

کھڑکی کے پٹ تھرائیں گے

ہمارے درد کی جانب اشارہ کرتی ہیں

 ہمارے درد کی جانب اشارا کرتی ہیں

فقط کہانیاں ہم کو گوارا کرتی ہیں

یہ سادگی یہ نجابت جو عیب ہیں میرے

سنا تھا ان پہ تو نسلیں گزارا کرتی ہیں

خود اپنے سامنے ڈٹ جاتی ہیں جو شخصیتیں

وہ جیتتی ہیں کسی سے نہ ہارا کرتی ہیں

Monday 26 July 2021

آج روز گریہ ہے اور بے گناہی پر آسمان برسے گا

 بے زبان


آج روزِ گریہ ہے

چھمچھماتی آنکھوں سے اک جہان برسے گا

روگ، درد اور یہ غم

درمیان برسے گا

میری بے نوائی پر خاکدان برسے گا

بارش جیسی لگتی ہو

 جب دھیمے دهیمے ہنستی ہو

اس بارش جیسی لگتی ہو

تهوڑی دل کی کہتی ہو

زیاده دل میں رکهتی ہو

کیوں جاؤں رنگریز کے پاس

تم تو سیاه میں جچتی ہو

آنکھیں تو دروازے ہیں

 آنکھیں

 

آنکھیں تو دروازے ہیں

یا جھلمل کرتے

بیچ سمندر راہ دکھاتے

٭دو ستارے٭


سبین علی

ہاتھ میں کیا حسیں ہاتھ تھا

 پچھتاوا


ہاتھ میں کیا حسیں ہاتھ تھا

رات جذبات میں

شدتیں تھیں بہت

زور سے

جام کو جام سے

میں نے ٹکرا دیا

خود کو اذیت دینے سے کیا فائدہ اقرار کر لو

 اقرار کر لو


خود کو اذیت دینے سے کیا فائدہ

اقرار کر لو

کہہ دو اسے

کہ

"مجھے تم سے محبت ہے"

دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا

دل پریشان آنکھ پر نم ہے

 دل پریشان آنکھ پُر نم ہے

روبرو ہجرتوں کا موسم ہے 

تو مِرے پاس ہے مگر پھر بھی 

ایسا لگتا ہے کوئی شے کم ہے 

میں تِرے بعد جی نہیں سکتا

اور یہ میرا آخری غم ہے 

ظرف تو دیکھیے میرے دل شیدائی کا

 ظرف تو دیکھیۓ میرے دل شیدائی کا

جامِ مے بن گیا اک مست خود آرائی کا

جی میں آتا ہے کہ پھولوں کی اڑا دوں خوشبو

رنگ اڑا لائے ہیں ظالم تِری رعنائی کا

میں ابھی ان کو شناسائے محبت کر دوں

کاش موقع تو ملے ان سے شناسائی کا

تمہارے ساتھ یہ جھوٹے فقیر رہتے ہیں

 تمہارے ساتھ یہ جھوٹے فقیر رہتے ہیں

ہمارے ساتھ تو منکر نکیر رہتے ہیں

ہماری کم نظری سے جو ہو گئے محدود

انہی مزاروں میں روشن ضمیر رہتے ہیں

روایتوں کے تأثر کا اپنا جادو ہے

کہیں کہیں مِری غزلوں میں میر رہتے ہیں

جنوں زیادہ بہت ہوتا عقل کم ہوتی

 جنوں زیادہ بہت ہوتا عقل کم ہوتی

میں قہقہہ بھی لگاتا تو آنکھ نم ہوتی

ہزاروں چاند ستارے چمک گئے ہوتے

کبھی نظر جو تِری مائل کرم ہوتی

نہیں ہے مصلحت غم کو آرزو تِری

تِرا جو غم بھی نہ ہوتا تو آنکھ نم ہوتی

ہم تری راہ میں مٹ جائیں گے سوچا ہے یہی

 ہم تری راہ میں مٹ جائیں گے سوچا ہے یہی

درد مندانِ محبت کا طریقا ہے یہی

آپ ہوں پیش نظر روح جو تن سے نکلے

اے مِری جان مِری آنکھوں کی تمنا ہے یہی

ہو گیا عام محبت کا میری افسانہ

اب تو جس بزم میں جا بیٹھے چرچا ہے یہی

کیا ہو گا اندازہ تھوڑی ہوتا ہے

 کیا ہو گا اندازہ تھوڑی ہوتا ہے

ہم نے وقت بنایا تھوڑی ہوتا ہے

لوگوں کو بس باتیں کرنا آتی ہیں

لوگوں نے کچھ کرنا تھوڑی ہوتا ہے

میرے پاس کھڑی شہزادی لگتی تھی

ہر کوئی شہزادہ تھوڑی ہوتا ہے

سالگرہ آج کا دن کتنا پیارا ہے

 سالگرہ


آج کا دن کتنا پیارا ہے

دل دھرتی پر پھول کِھلے ہیں

خوشیوں کی رِم جِھم برکھا ہے

لمحہ لمحہ بھیگ رہا ہے

سچی خواہش کی خوشبو سے

دھڑکن دھڑکن اک نغمہ ہے

چہرہ حلیہ حال پرانا پڑ جاتا ہے

 چہرہ، حلیہ، حال پرانا پڑ جاتا ہے

اپنے گھر میں نام بتانا پڑ جاتا ہے

اک تیزی منزل سے آگے لے جاتی ہے

پھر سے دنیا گھوم کے آنا پڑ جاتا ہے

کچھ قبروں کو پھول ترستے رہ جاتے ہیں

کچھ خوابوں کو روز بھلانا پڑ جاتا ہے

راستہ روکے ہے دل پھر بھی ادھر جانا ہے

 راستہ روکے ہے دل پھر بھی ادھر جانا ہے

رات کرتی ہے تقاضہ؛ چلو، گھر جانا ہے

ہم بھی دیکھیں گے کسک دل میں رہے گی کب تک

دل کے زخموں کو کسی روز تو بھر جانا ہے

اب تو لینا ہیں یہ سانسیں بھی تِری ہی خاطر

اور تِرے ساتھ ہی اک دن مجھے مر جانا ہے

اب حقیقت لگ رہا ہے میرا افسانہ مجھے

 اب حقیقت لگ رہا ہے میرا افسانہ مجھے

ساری دنیا کہہ رہی ہے تیرا دیوانہ مجھے

میں اٹھا تو کون ہونٹوں سے لگائے گا انہیں

مدتوں ڈھونڈا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

یہ محبت کا اثر ہے یا مِرا دیوانہ پن

صحن گلشن سا نظر آتا ہے ویرانہ مجھے

کچھ بادل کچھ چاند سے پیارے پیارے لوگ

 کچھ بادل کچھ چاند سے پیارے پیارے لوگ

ڈُوب گئے جتنے تھے آنکھ کے تارے لوگ

کچھ پانے کچھ کھو دینے کا دھوکہ ہے

شہر میں جو پھرتے ہیں مارے مارے لوگ

شہرِ بدن بس رین بسیرا جیسا ہے

منزل پر کب رُکتے ہیں بنجارے لوگ

کچھ کہتے کہتے رہ جانا

 پیار


کچھ کہتے کہتے رہ جانا

اور رکتے رکتے کہہ جانا

یہ پیار تو ایسا ہوتا ہے

جو دل میں درد سموتا ہے

اب بھیگی بھیگی شاموں میں

اک چہرہ ہر پل آنکھوں میں

گرتے شیش محل دیکھو گے

 گِرتے شیش محل دیکھو گے

آج نہیں تو کل دیکھو گے

اس دُنیا میں نیا تماشا

ہر ساعت ہر پل دیکھو گے

کس کس تُربت پر روؤ گے

کس کس کا مقتل دیکھو گے

گزارش محبت کے امیں ہو تم

 گزارش


محبت کے امیں ہو تم

مرے دل میں مکیں ہو تم

جو ہو تجسیم خوابوں کی

وہ تعبیرِ حسیں ہو تم

مِری آنکھوں کے کاجل میں

تمہارے پیار کا جادو

میں آگ بھی تھا اور پیاسا بھی

 آگ کی پیاس


میں آگ بھی تھا اور پیاسا بھی

تُو موم تھی اور گنگا جل بھی

میں لپٹ لپٹ کر

بھڑک بھڑک کر

پیاس بجھاتی آنکھوں میں بجھ جاتا تھا

وہ آنکھیں سپنے والی سی

فضا میں جب بھی بکھرتے ہیں رنگ موسم کے

 فضا میں جب بھی بکھرتے ہیں رنگ موسم کے

تمہارے عکس سے لگتے ہیں رنگ موسم کے

یہ اور بات کی تم نے کبھی نہیں دیکھا

مِری پلک پہ ٹھہرتے ہیں رنگ موسم کے

تمہاری یاد کے پیکر میں ڈھلنے لگتے ہے

نظر میں جب بھی ابھرتے ہیں رنگ موسم کے

خبر مجھے بھی نہیں ہے سخن شناس مرے

 خبر مجھے بھی نہیں ہے سخن شناس مِرے

گزر رہے ہیں شب و روز کیوں اداس مرے

لکھا ہوا ہے سیاحت کے باب میں مجھ کو

فراغتوں میں وہ پڑھتا ہے اقتباس مرے

لُبھا گیا اسے اجماعِ دولت و شہرت

اٹھائے رہ گئے سب مخلصی قیاس مرے

گونجتی ہے ہوا درختوں میں

 گونجتی ہے ہوا درختوں میں

گیت ہے شام کا درختوں میں

ہم چلے تو ہمارے ساتھ آیا

دور تک راستہ درختوں میں

سبز شعلوں کو پھونک دیتی ہے

بارشوں کی ہوا درختوں میں

میرا دعویٰ ہے پارسا ہوتے

 میرا دعویٰ ہے پارسا ہوتے

تم اگر غم سے آشنا ہوتے

بارشِ آسماں دہل جاتی 

میرے آنسو جو بے ردا ہوتے

کون ڈھوتا تیرے خیالوں کو

سوچ گر ہم بھی بے وفا ہوتے

تری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے

 تِری تلاش میں جو خود کو بھول آئے تھے

پتا وہ اپنا کبھی ڈھونڈنے نہ پائے تھے

کسے خبر تھی کہ پھولوں میں بھی ہنر ہے وہی

کس احتیاط سے کانٹوں سے بچ کے آئے تھے

وہ بے حسی کا تھا عالم ذرا خبر نہ ہوئی

کہ روشنی تھی سرِ رہگزر کہ سائے تھے

پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے

 پتھر کی نیند سوتی ہے بستی جگائیے

آبِ حیات سا کوئی اعجاز لائیے

جل جائیے مقام پہ اپنے مثال شمع

اپنے بدن کی لو سے نہ گھر کو جلائیے

اک نہر کاٹیۓ کبھی سینے سے چاند کے

دامانِ شب میں نور کا دھارا بہائیے

خوشی میں غم ملا لیتے ہیں تھوڑا

 خوشی میں غم ملا لیتے ہیں تھوڑا

یہ سرمایہ بڑھا لیتے ہیں تھوڑا

نظر آتے ہیں جب اطراف چھوٹے

ہم اپنا قد گھٹا لیتے ہیں تھوڑا

ہے اندر روشنی، باہر اندھیرا

سو دونوں کو ملا لیتے ہیں تھوڑا

سجا رہے گا اندھیروں سے ہی کھنڈر میرا

 سجا رہے گا اندھیروں سے ہی کھنڈر میرا

اک ایک کر کے ہوا ختم اب سفر میرا

مِرا مزاج، مِرا طرزِ زندگی ہے جدا

نہ ہو سکے گا مِرے گھر میں بھی گزر میرا

جو کام آ سکے لے جا مِرے عزیز ابھی

یہ تیرے سامنے حاضر ہے آج سر میرا

لگائیں آگ ہی دل میں کہ کچھ اجالا ہو

 لگائیں آگ ہی دل میں کہ کچھ اجالا ہو

کسی بہانے تو اس گھر کا بول بالا ہو

نمودِ صبح کو کیسے کرے جہاں تسلیم

کوئی کرن ہو، کہیں نام کو اجالا ہو

نہ تم ملے نہ یہ دنیائے غم ہی راس آئی

تم ہی بتاؤ کہ اس غم کا کیا ازالہ ہو؟

دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے

 دل تھا بے کیف محبت کی خطا سے پہلے

لطف ایسا نہیں آیا تھا سزا سے پہلے

ہائے انداز محبت بھی عجب تھا ان کا

کر رہے تھے وہ جفا مجھ پہ وفا سے پہلے

کس قدر تیری دعاؤں میں اثر تھا اے دوست

ہو گیا ہوں میں صحت یاب دوا سے پہلے

کسی کے نام کے کوئی گلاب بیچتا ہے

 کسی کے نام کے کوئی گلاب بیچتا ہے

کہیں پہ کوئی محبت کے باب بیچتا ہے

ہم اس کے شہر میں آئے تو ہم پہ راز کھلا

یہاں تو شہر کا ہر شخص خواب بیچتا ہے

تو اپنے دین کو روزی بنا کے پھرتا ہے

خدا کا قہر گناہ و ثواب بیچتا ہے

جس کی آنکھوں میں بھی اشکوں کی روانی ہو گی

 جس کی آنکھوں میں بھی اشکوں کی روانی ہو گی

در حقیقت وہ محبت کی کہانی ہو گی

وہ جو بچپن میں ہی لگتا ہے کوئی جادوگر

کیا ستم ڈھائے گا جب اس پہ جوانی ہو گی

کل مجھے کہنے لگی اس کے خطوں کی خوشبو

اس کی ہر یاد تمہیں دل سے بھلانی ہو گی

تختیاں سب اتار دی گئی ہیں

 تختیاں سب اُتار دی گئی ہیں

مِرے گھر کا کہیں پتہ ہی نہیں

ریگِ بریاں پہ چل کے آئے ہیں

پاؤں میں کوئی آبلہ ہی نہیں

زخمِ دل کو تلاشِ مرہم تھی

اور مرہم کہیں ملا ہی نہیں

نظم کا آخری ٹھکانہ وہ مجھے لے جاتی ہے

 نظم کا آخری ٹھکانہ


وہ مجھے لے جاتی ہے

مکانوں کی پیچھے متوازی چلتی ہوئی

لمبی گلیوں کو کاٹتی پگڈنڈیوں پہ

شارٹ کٹ کا بہانہ کر کے

وہ مجھے لے جاتی ہے

پرندوں سے ڈرے ہوئے کھیتوں میں

جب سے تیری یاد پتھر ہو گئی

 جب سے تیری یاد پتھر ہو گئی

ہو گئی برباد، پتھر ہو گئی

بے خبر میرے تجھے اس بار میں

کرتے کرتے یاد پتھر ہو گئی

عرش کی جانب چلی تھی اور پھر

میری ہر فریاد پتھر ہو گئی

تجھ خد و خال میں اوجھل ہی نہ ہو جاؤں میں

 تجھ خد و خال میں اوجھل ہی نہ ہو جاؤں میں

یوں نہ مل مجھ سے مکمل ہی نہ ہو جاؤں میں

میں تِرے بعد اکیلے میں بہت بولتا ہوں

بات کر مجھ سے کہ پاگل ہی نہ ہو جاؤں میں

اب تو حیوان بھی مجھ باغ تک آنے لگے ہیں

ان پہ قدغن ہو کہ جنگل ہی نہ ہو جاؤں میں

تیری یاد نے من آنگن میں ہاتھ اٹھا کر رقص کیا

 رقص کیا


اوڑھ کے شام سلونا آنچل 

شرمائی سی بیٹھی تھی

کھول کے گھونگھٹ بادل کا 

جب چاند نے آ کر رقص کیا


شہرِ ذات کی گلیوں میں 

اداس موسم میں مسکرانا نہ تیرے بس میں نہ میرے بس میں

 اداس موسم میں مسکرانا نہ تیرے بس میں نہ میرے بس میں

جدائی کے روگ کو چھپانا نہ تیرے بس میں نہ میرے بس میں

وہ فصلِ گل تو اب ڈھل چکی ہے، چِتا محبت کی جل چکی ہے

وفا کی میت کو اب اٹھانا نہ تیرے بس میں نہ میرے بس میں

وہ پیار کے پل وہ چاند راتیں، وہ دل نشیں پھول جیسی باتیں

حسیں یادوں کو بھول جانا نہ تیرے بس میں نہ میرے بس میں

عشق ہے وحشت ہے کیا ہے کچھ پتا تو چاہئے

 عشق ہے وحشت ہے کیا ہے کچھ پتا تو چاہئے

کیا کہوں میں اس سے آخر مدعا تو چاہئے

در گزر کر میرے مالک تُو نظر آتا نہیں

سر جھکانے کے لیے کوئی پتا تو چاہئے

رات کی پلکیں بھی خالی گھر کے آنگن کی طرح

روشنی کے واسطے کوئی دِیا تو چاہئے

شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

 شہر غفلت کے مکیں ویسے تو کب جاگتے ہیں

ایک اندیشۂ شبخوں ہے کہ سب جاگتے ہیں

شاید اب ختم ہوا چاہتا ہے عہدِ سکوت

حرفِ اعجاز کی تاثیر سے لب جاگتے ہیں

راہ گم کردۂ منزل ہیں کہ منزل کا سراغ

کچھ ستارے جو سر قریۂ شب جاگتے ہیں

شام ڈھلنے سے اک ذرا پہلے

 شام ڈھلنے سے اک ذرا پہلے

دن نکلنے سے اک ذرا پہلے

ہم نے پورے کیے سبھی ارمان

دل کے جلنے سے اک ذرا پہلے

ایک لمحہ کو تم بھی آ جاتے

رُت بدلنے سے اک ذرا پہلے

قفس رنگ سے نکلے تو کدھر جائیں گے

 قفسِ رنگ سے نکلے تو کدھر جائیں گے

ہم پریشانِ نظر اور بکھر جائیں گے

شعلۂ وقت سے ہر شمع کو ملتی ہے چمک

محفلِ دل کے مقدر بھی سنور جائیں گے

کہیں ملتا ہی نہیں بحرِ جنوں کا ساحل

صورتِ موجِ بلا خیز گزر جائیں گے

Sunday 25 July 2021

سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے

 سانسوں کی روانی میں خلل آنے لگا ہے 

ٹھہرو کہ بچھڑ جانے کا پل آنے لگا ہے 

کہتے ہو تو لہجے کی کمر سیدھی نہ کر لوں 

مانا کہ مِرے عجز پہ پھل آنے لگا ہے 

یہ کیا کہ ہر اک وقت کی بیزار سماعت 

ہر لفظ کی پیشانی پہ بل آنے لگا ہے

لاگ ایسی کہ دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

 لاگ ایسی کہ دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی

آگ ایسی کہ سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی

ذہن و دل برسرِ پیکار رہا کرتے ہیں

شور اتنا ہے سنائی نہیں دیتا کچھ بھی

عشقِ منصور بھی لازم ہے اناالحق کے لیے

صرف دعوائے خدائی نہیں دیتا کچھ بھی

اک طاق میں ہوں جیسے رکھا ہوا اکیلا

 اک طاق میں ہوں جیسے رکھا ہوا اکیلا

جلتا ہوا اکیلا،۔ بجھتا ہوا اکیلا

کب تک کرے گا مجھ میں آباد اک جہاں کو

شاخوں میں اک پرندہ بیٹھا ہوا اکیلا

بڑھتا رہا میں آگے ہٹتا رہا میں پیچھے

دن بھر یوں ہی ہوا سے لڑتا ہوا اکیلا

محبتوں میں اداس ہو کر رہا نہ جائے

 محبتوں میں اداس ہو کر رہا نہ جائے

اداس موسم کا تذکرہ بهی کیا نہ جائے

ملو تو ایسے کہ آئینہ آیئنے سے جیسے

دلوں میں رنجش یا بغض رکھ کر ملا نہ جائے

میں چاہتی ہوں بغیر میرے نہ ره سکے تو

میں چاہتی بغیر تیرے رہا نہ جائے

اس کے باغ بدن کو دیکھتے ہیں

 اس کے باغ بدن کو دیکھتے ہیں

اک چمن در چمن کو دیکھتے ہیں

پھول پتے ہیں شاخساروں پر

ہم گلاب اور سمن کو دیکھتے ہیں

نقرئی لوح پر نقوشِ بہار

خالقِ کُل کے فن کو دیکھتے ہیں

تم جس طرف چلو گے ادھر کام آئے گا

 تم جس طرف چلو گے ادھر کام آئے گا

رات آئی تو چراغِ نظر کام آئے گا

مت کاٹئے کہ دھوپ کا موسم قریب ہے

سایہ سکون دے گا شجر کام آئے گا

تم آنسوؤں کی روشنی رکھنا سنبھال کر

تاریکیوں میں دیدۂ تر کام آئے گا

وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر

 وہ غم شناس لوگوں پہ کرتا یقیں اگر

اس کے یقیں کو آخری شب تک سنبھالتے 

اپنی انا کی موج میں ہے وہ اور ایک ہم

پھرتے ہیں اس کے عہد کو اب تک سنبھالتے

سب خواہشات مار کے بس اک تِری طلب

لایا ہوں دل کی غار سے لب تک سنبھالتے 

یہ بات کیوں نہیں لگتی بہت عجیب تمہیں

 یہ بات کیوں نہیں لگتی بہت عجیب تمہیں

کوئی کسی کو پکارے جواب تک نہ ملے

بس اک خلش کا مقدر سنوارنے کے لیے

سوال کیا کیا نکھارے جواب تک نہ ملے

پس نوشتۂ تقدیر ماجرا کیا تھا؟

بجھائے کس نے ستارے جواب تک نہ ملے

یہ سارے پرندے ہیں یہیں کے

 یہ سارے پرندے ہیں یہیں کے

اک ایک شجر کو جانتے ہیں

اس لطف میں جان دی ہے ہم نے

موجوں کو بھنور کو جانتے ہیں

گنتے ہیں ہم ایک ایک لمحہ

ہم شام و سحر کو جانتے ہیں

کئی دنوں سے کسی بہانے دل بہلتا ہی نہیں

 کئی دنوں سے

کسی بہانے

دل بہلتا ہی نہیں

یوں لگتا ہے

جیسے

ذہن کے گوشے میں

جس دیس نے قاتل کو عزت سے نوازا ہو

 جس دیس نے قاتل کو عزت سے نوازا ہو

اس دیس کا مستقبل فی الحال اکارت ہے

مسلم ہی ہراساں کیوں، کیوں اس پہ تشدد ہے

اے اہلِ جنوں! کہہ دو، آثارِ قیامت ہے

بے خوف جہاں ہر دم سینوں پہ چلیں گولی

اس جنتِ ارضی کی اب یارو یہ حالت ہے