Monday 26 July 2021

میرا دعویٰ ہے پارسا ہوتے

 میرا دعویٰ ہے پارسا ہوتے

تم اگر غم سے آشنا ہوتے

بارشِ آسماں دہل جاتی 

میرے آنسو جو بے ردا ہوتے

کون ڈھوتا تیرے خیالوں کو

سوچ گر ہم بھی بے وفا ہوتے

عشق نے مات دے دیا ورنہ

آج ہم جانے کیا سے کیا ہوتے

تُو حسیں لفظ سے سجا دیتا

کاش غزلوں کا قافیہ ہوتے

مسلکوں کی نہ چلتی گر قینچی

آج سالارِ قافلہ ہوتے

اتنا پھینکا ہے وقت نے پتھر

ورنہ ہم آج آئینہ ہوتے

گر بچھڑنا میرا مقدر تھا

روتے روتے ہوئے جدا ہوتے

تشنگی چوم لیتی ہونٹوں کو

کاش شیدائے کربلا ہوتے

دل منانا تجھے نہیں آتا

ورنہ اتنا نہ ہم خفا ہوتے


دل سکندرپوری 

No comments:

Post a Comment