جب ستاروں کے لیے تیرگی چھٹ جاتی ہے
روشنی اونچے محلات میں بٹ جاتی ہے
پاس آنے سے مجھے روکا گیا دے کے مثال
زوم کرنے پہ تو تصویر بھی پھٹ جاتی ہے
خواب نعمت ہیں مِرے واسطے زندان میں یوں
گھوم پھر لیتا ہوں زنجیر بھی کٹ جاتی ہے
اتفاقا تو نہیں گونجتے رہتے مِرے کان
کوئی آواز ہے جو آ کے پلٹ جاتی ہے
کم نظر ہوں مگر اس شخص کو جب دیکھتا ہوں
ایک دنیا میری آنکھوں میں سمٹ جاتی ہے
یار سگریٹ پہ یونہی تہمتیں دھرتے ہیں یہ لوگ
سانس لینے سے بھی تو زندگی گھٹ جاتی ہے
ازبر سفیر
No comments:
Post a Comment