مِرے طبیب
مِرے چارہ گر ذرا سن تو
چراغِ درد کی لَو کو ذرا بڑھا دے اور
بڑا اندھیرا ہے
کچھ دیر روشنی کر لیں
غموں کے نُور سے
ہستی کے داغ تو دھو لیں
عمر پڑی ہے بہاروں کے پُھول چُننے کو
خزاں کا لہجہ تو تہِ دل تک اُتار لینے دو
بدلتی رُتوں میں
کیا خبر ہم بدل جائیں
یہ دل شکستہ و گِرانْبار میری تنہائی
مِرے قریب نہ آئے
کسی اور دیس اُٹھ جائے
یہ سرسراتی ہواٸیں اور ان کے ہاتھوں سے
فضا میں بکھرتے گرتے یہ زرد پتوں کا حسن
میرے ذوقِ نظر کو پھر یوں
بھائے نہ بھائے
کیا خبر
آتی رُتوں کے دامن میں
کسی لمحے پہ غم کا عکس نہ ہو
سارے لمحے گلاب ہو جائیں
ہر ساعت خوشی کی ساعت ہو
سارے موسم بہار ہو جائیں
روٹھ جائے نہ اداسی کا حسن ہم سے
اور ہم اس سے اداس ہو جائیں
اس سے پہلے کہ رُت بدل جائے
اور ذرا اس کے پاس ہو جائیں
نائلہ خاور
No comments:
Post a Comment