اس نے پھینکا تھا اگرچہ بڑی اونچائی سے
مرحلہ وار نکل آیا ہوں گہرائی سے
راز مرغابی کی ہجرت کا کُھلا ہے مجھ پر
ایک تالاب کے چہرے پہ جمی کائی سے
شام کا وقت بڑی دیر تلک ٹھہرا رہا
میں سسکتے ہوئے لڑتا رہا تنہائی سے
میں عدو سے تو کسی طور نہیں ہاروں گا
کیا بچائے گا مجھے کوئی مِرے بھائی سے
آپ انجام سے غافل ہیں، خدا خیر کرے
دیر لگتی نہیں گرتے ہوئے اونچائی سے
ریت سے اٹ گیا آخر مِری خوشبو کا وجود
کوئی لِپٹا ہی نہیں مجھ گلِ صحرائی سے
میں بہت سارے خزانوں کا پتہ جانتا ہوں
آپ کچھ کام تو لیجیے مِری بینائی سے
وہ کسی اور سے ملنا نہیں ممکن ناظر
جو ملی ہے مجھے چاہت مِری ماں جائی سے
عثمان ناظر
No comments:
Post a Comment