Friday 30 July 2021

وہ بے وفا کوئی دم اور جو ٹھہر جاتا

 وہ بے وفا کوئی دم اور جو ٹھہر جاتا

رہِ طلب میں یہ دل یوں نہ در بدر جاتا

تِری گلی میں فسانے بکھیرنے کے لیے

یہ لازمی تھا کہ ہم سا ہی بے خطر جاتا

تجھ اجنبی کا ہو کیا غم کہ اس اندھیرے میں

میں اپنے آپ کو خود دیکھتا تو ڈر جاتا

تمہاری بندش آداب سے نظر جاگی

میں بے خبر تو یوں ہی راہ سے گزر جاتا

مجھی میں ہو نہ کسی آنچ کی کمی ورنہ

کوئی سخن تو تِری روح تک اتر جاتا

کوئی نگاہ تو ہوتی سکوں شناس کبھی

کوئی نفس تو کسی موڑ پر ٹھہر جاتا

وہ بُوئے گل ہے تو ہم موجۂ صبا انجم

وہ ہم سے بچ کے چلا تھا مگر کدھر جاتا


انوار انجم

No comments:

Post a Comment