کوئی متاع زیست نہ ہی سنسار کی طلب
دل کو رہی نہ اب کسی شاہکار کی طلب
ہوتا ہے بپا روز یہاں حشر کا منظر
کرتا ہے کون حشر کے آزار کی طلب
اس دور میں تقاضۂ انصاف و عدل خوب
جیسے کہ بزمِ رنگ و مئے افکار کی طلب
بازار میں رکھ چھوڑا ہے، بولی تو لگاؤ
سستے ضمیر کو ہے خریدار کی طلب
کاسہ ہو جس کے ہاتھ میں وہ کیا کرے دعا
کیوں کر کرے فقیر دستِ یار کی طلب
کتنا عجب ہے دوستو اک مُردہ صفت قوم
حاکم سے کرے عظمتِ کردار کی طلب
پورب کو بس ہے اسمِ محمدﷺ سے واسطہ
اور دل میں نام والے کے دیدار کی طلب
علی عمران
No comments:
Post a Comment