Wednesday, 28 July 2021

کوئی متاع زیست نہ ہی سنسار کی طلب

 کوئی متاع زیست نہ ہی سنسار کی طلب

دل کو رہی نہ اب کسی شاہکار کی طلب

ہوتا ہے بپا روز یہاں حشر کا منظر

کرتا ہے کون حشر کے آزار کی طلب

اس دور میں تقاضۂ انصاف و عدل خوب

جیسے کہ بزمِ رنگ و مئے افکار کی طلب

بازار میں رکھ چھوڑا ہے، بولی تو لگاؤ

سستے ضمیر کو ہے خریدار کی طلب

کاسہ ہو جس کے ہاتھ میں وہ کیا کرے دعا

کیوں کر کرے فقیر دستِ یار کی طلب

کتنا عجب ہے دوستو اک مُردہ صفت قوم

حاکم سے کرے عظمتِ کردار کی طلب

پورب کو بس ہے اسمِ محمدﷺ سے واسطہ

اور دل میں نام والے کے دیدار کی طلب


علی عمران

No comments:

Post a Comment