اسی لیے ان کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں
ہماری آنکھوں میں خواب اوندھے پڑے ہوئے ہیں
شمار کرنا تو خیر ممکن نہیں ہے، تاہم
بہت سے غم ہیں جو الٹے سیدھے پڑے ہوئے ہیں
مِری جدائی سے فرق تو کچھ نہیں پڑا ہے
تمہارے کانوں میں اب بھی جھمکے پڑے ہوئے ہیں
کہیں سیاہی، کہیں پہ ٹوٹا قلم پڑا ہے
کہیں پہ خط تو کہیں لفافے پڑے ہوئے ہیں
جو چوم کر معتبر ہوئے ہیں تمام رستے
ہمارے پیروں میں ایسے چھالے پڑے ہوئے ہیں
تمہاری یادوں کی باس کمرے میں ناچتی ہے
ہر ایک کمرے میں ٹوٹے سپنے پڑے ہوئے ہیں
تمہارے جانے سے اب اداسی کو شہ ملے گی
ہر ایک منظر کے رنگ پھیکے پڑے ہوئے ہیں
کثیلے منظر میں مُردہ اجسام کے برابر
پرانے تھیلوں میں میلے جذبے پڑے ہوئے ہیں
خدا کرے خیر، میں نے کل شب یہ خواب دیکھا
بلاؤں کے سامنے کلیجے پڑے ہوئے ہیں
ابھی نہ جاؤ خدا کے بندے کہاں چلے ہو؟
ابھی تو دل میں ہزاروں شکوے پڑے ہوئے ہیں
عثمان ناظر
No comments:
Post a Comment