Thursday, 29 July 2021

کسی کو جاب ملی ہے نہ گھر دئیے گئے ہیں

 کسی کو جاب ملی ہے نہ گھر دئیے گئے ہیں

ہمارے خواب سوئے دار کر دئیے گئے ہیں

کہاں کا پوچھ رہے ہو، نئی ریاست میں

پرانے نام تو تبدیل کر دئیے گئے ہیں

وہ شخص قدرتی حالت میں خوبصورت تھا

مگر جو فالتو کچھ رنگ بھر دئیے گئے ہیں

رخِ گلاب کو شبنم سے صاف کرتی ہے

ہوائے صبح کو کیسے ہنر دئیے گئے ہیں

قیام کرنے کی خاطر کوئی درخت نہیں

مگر سفر کے لیے بال و پر دئیے گئے ہیں

ہمارا مسئلہ چادر سے انحراف نہیں

ہمارے پاؤں کہیں اور دھر دئیے گئے ہیں

کسی سوال کی قیمت نہیں چکائی گئی

ہمیں جواب بہت مختصر دئیے گئے ہیں


لطیف ساجد

No comments:

Post a Comment