کسی کو جاب ملی ہے نہ گھر دئیے گئے ہیں
ہمارے خواب سوئے دار کر دئیے گئے ہیں
کہاں کا پوچھ رہے ہو، نئی ریاست میں
پرانے نام تو تبدیل کر دئیے گئے ہیں
وہ شخص قدرتی حالت میں خوبصورت تھا
مگر جو فالتو کچھ رنگ بھر دئیے گئے ہیں
رخِ گلاب کو شبنم سے صاف کرتی ہے
ہوائے صبح کو کیسے ہنر دئیے گئے ہیں
قیام کرنے کی خاطر کوئی درخت نہیں
مگر سفر کے لیے بال و پر دئیے گئے ہیں
ہمارا مسئلہ چادر سے انحراف نہیں
ہمارے پاؤں کہیں اور دھر دئیے گئے ہیں
کسی سوال کی قیمت نہیں چکائی گئی
ہمیں جواب بہت مختصر دئیے گئے ہیں
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment