مرتے ہوئے وجود کی حسرت تمام شد
سانسوں سے لپٹی آخری چاہت تمام شد
دستِ قضا بڑھا ہے مِری سمت، الوداع
اے اعتکافِ عشق! عبادت تمام شد
ساقی تمہارے مدھ بھرے ہونٹوں کا شکریہ
بادہ کشی کی ساری حلاوت تمام شد
ٹوٹی ہے آج سانس کی ڈوری تو یوں ہوا
ان دیکھی منزلوں کی مسافت تمام شد
بجھتے ہوئے چراغ کی صورت ہوا ہوں میں
اک خوبرو وجود کی طاقت تمام شد
اے بارگاہِ حسن! کوئی فیصلہ تو کر
اس نامراد عشق کی حجت تمام شد
ارشد مجھے تو غیب سے آتی ہے اب صدا
ابنِ تراب اب تِری مہلت تمام شد
ارشد محمود
No comments:
Post a Comment