تمہارے حسن کی تسخیر عام ہوتی ہے
کہ اک نگاہ میں دنیا تمام ہوتی ہے
جہاں پہ جلوۂ جاناں ہے انجمن آرا
وہاں نگاہ کی منزل تمام ہوتی ہے
وہی خلش وہی سوزش وہی تپش وہی درد
ہمیں سحر بھی بہ انداز شام ہوتی ہے
نگاہ حسن مبارک تجھے در اندازی
کبھی کبھی مری محفل بھی عام ہوتی ہے
زہے نصیب میں قربان اپنی قسمت کے
ترے لیے مری دنیا تمام ہوتی ہے
نماز عشق کا ہے انحصار اشکوں تک
یہ بے نیاز سجود و قیام ہوتی ہے
تری نگاہ کے قرباں تری نگاہ کی ٹیس
یہ ناتمام ہی رہ کر تمام ہوتی ہے
وہاں پہ چل مجھے لے کر مرے سمند خیال
جہاں نگاہ کی مستی حرام ہوتی ہے
کسی کے ذکر سے بہزاد مبتلا اب تک
جگر میں اک خلش نا تمام ہوتی ہے
بہزاد لکھنوی
No comments:
Post a Comment