تمہارے جیسے تو ویسے بھی کم سمجھتے ہیں
ہمارے اپنے مسائل ہیں ہم سمجھتے ہیں
ہمارے سینے سے دنیا لپٹ کے روتی ہے
فقیر لوگ ہیں، لوگوں کا غم سمجھتے ہیں
تُو جتنے اشکوں سے گریہ گزار بنتا ہے
ہم اتنا رو لیں تو آنکھوں کو نم سمجھتے ہیں
ہمیں پتہ ہیں نشیب و فراز دنیا کے
تمہارے جسم کا ہم زیر و بم سمجھتے ہیں
وہ جانتے ہیں کہ ان سے بھی ہو کے گزرے گی
جو لوگ تیری نظر کا رِدھم سمجھتے ہیں
کوئی جتا دے تو احسان مانتے ہیں میاں
وگرنہ، ہم تو خدا کا کرم سمجھتے ہیں
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment