سن لبِ دریا سے بچے کی صدا آتی ہے
یار اس پانی سے پیاسے کی صدا آتی ہے
پہلے آتا ہے رگوں میں کسی کا پاک لہو
دل میں پھر حیدریؑ نعرے کی صدا آتی ہے
کتنی دلدوز ہے، بس خوف ہے دل چیر نہ دے
رونے والوں میں جو ہنسنے کی صدا آتی ہے
مجھ پہ کُھلنے ہی لگا ہوتا ہے دروازۂ جسم
پھر اچانک کسی تالے کی صدا آتی ہے
قید آوارگی میں کھچتے ہیں اعصاب مرے
پاؤں ہلتے ہیں تو چلنے کی صدا آتی ہے
کتنی وارفتگی سے جلتا ہے ظلمت میں چراغ
کتنے آرام سے بجھنے کی صدا آتی ہے
پہلے وہ جسم لپٹتا ہے لباسِ چپ میں
اور پھر بخیے ادھڑنے کی صدا آتی ہے
رنگ لے آئی ہے زنجیر بدوشی میری
حلقۂ لیلٰی سے ہائے کی صدا آتی ہے
میرا قیدی ابھی زندہ ہے مرے دل میں امیر
رات بھر سینے سے گریے کی صدا آتی ہے
امیر سخن
No comments:
Post a Comment