مِری تقدیر کے لکھے لطیفے کتنے سارے ہیں
مِری جیبوں میں پتھر ہیں مِرے ماتھے پہ تارے ہیں
بہت آسان تھا ان کے لیے اس نہر پہ قبضہ
مگر وہ لوگ سچ سے جیتنے کی ضد میں ہارے ہیں
کبھی گھر سے نہیں نکلے کبھی جنگوں پہ جنگیں کی
کبھی مچھر نہیں مارا، کبھی میدان مارے ہیں
وہیں پر بیٹھ کر سارے محلے کی خبر لے لو
گلی میں چائے کے اسٹال پر تازہ شمارے ہیں
مِرے حصے کے وہ سارے اندھیرے لے گیا ایسے
دِیے پہ جیسے برتن ڈھانپ کر کاجل اتارے ہیں
مِری کاپی میں رکھے پھول سب مرجھا گئے زہرا
مگر یہ نوٹ تو ویسے کے ویسے ہی کرارے ہیں
زہرا قرار
زہرہ قرار
No comments:
Post a Comment