Friday, 30 July 2021

کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے

 کسی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

وہ دل سے چاہے جو میرا ہونا تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

جو شام ڈھلتے ہی میری آنکھوں میں جِھلملاتا ہے چاند بن کر

وہ اپنے سینے میں میری دھڑکن سمو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

جو اپنے زخموں کو میری نظروں سے دُور رکھنے کا سوچتا ہے

وہ میری پلکوں کی نرم چھاؤں میں سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

اگرچہ طوفانِ اشک ہم کو تمہارے غم نے عطا کیا ہے

مگر یہ طوفان اپنی کشتی ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

میں سر سے پا تک ہوں اُس کا لیکن دُعائیں میری، وفائیں میری

اک اپنے ہرجائی پن کے باعث وہ کھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

مجھے یقیں ہے کہ میری چاہت میں وہ بھی آہیں بھرے گا لیکن

وہ چاند اشکوں سے اپنا دامن بھگو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

تمہارا شہباز جس کو جاناں حسین چاہت نہ راس آئی

وہ چند دن تک تمہاری دنیا میں ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی


شہباز نیر

No comments:

Post a Comment