ویرانیوں کے کارواں ہنستے چلے گئے
آوازیں میرے حال پہ کستے چلے گئے
تاروں کو کیا خبر کہ محبت کی دھوپ میں
کتنے حسین چہرے جھلستے چلے گئے
وافر نمی نے پُتلیوں کو دلدلی کیا
یوں خواب میری آنکھ میں دھنستے چلے گئے
آذر ہم ایسے لوگ، تردد کے باوجود
نظروں کی واردات میں پھنستے چلے گئے
فہیم الرحمٰن آذر
No comments:
Post a Comment