Saturday 31 July 2021

اپنے حالات کے ہاتھوں سے یہ مارا ہوا شخص

 اپنے حالات کے ہاتھوں سے یہ مارا ہوا شخص

پھر بھی مضبوط ہے اندر سے یہ ٹوٹا ہوا شخص

اپنی مرضی سے نہ جی سکتا نہ مر سکتا ہے

کتنا مجبور ہے جنت سے نکالا ہوا شخص

آگہی اپنی کہاں پائے، رہا کیسے ہو؟

وقت کے رسموں رواجوں میں یہ جکڑا ہوا شخص

لے گیا خواب چُرا کر کوئی آنکھوں کے سبھی

قابلِ رحم ہے صدیوں کا یہ جاگا ہوا شخص

خود کلامی بھی ہے تنہائی بھی خاموشی بھی

دُو بدو خود سے ہی رہتا ہے یہ ہارا ہوا شخص

نا کوئی فکر وعمل اور نہ اپنی کوئی بات

جان سے جائے گا خوابوں میں یہ کھویا ہوا شخص


ریاض شاہد

No comments:

Post a Comment