اپنے حالات کے ہاتھوں سے یہ مارا ہوا شخص
پھر بھی مضبوط ہے اندر سے یہ ٹوٹا ہوا شخص
اپنی مرضی سے نہ جی سکتا نہ مر سکتا ہے
کتنا مجبور ہے جنت سے نکالا ہوا شخص
آگہی اپنی کہاں پائے، رہا کیسے ہو؟
وقت کے رسموں رواجوں میں یہ جکڑا ہوا شخص
لے گیا خواب چُرا کر کوئی آنکھوں کے سبھی
قابلِ رحم ہے صدیوں کا یہ جاگا ہوا شخص
خود کلامی بھی ہے تنہائی بھی خاموشی بھی
دُو بدو خود سے ہی رہتا ہے یہ ہارا ہوا شخص
نا کوئی فکر وعمل اور نہ اپنی کوئی بات
جان سے جائے گا خوابوں میں یہ کھویا ہوا شخص
ریاض شاہد
No comments:
Post a Comment