Thursday 29 July 2021

تو وہ چراغ جو ہمہ شب ضوفشاں رہے

 تُو وہ چراغ جو ہمہ شب ضو فشاں رہے

میں وہ دیا کہ شام سے جس میں دھواں رہے

اس واسطے کہ بچھڑیں بھی تو دوست ہی رہیں

کچھ فاصلہ بھی تیرے مِرے درمیاں رہے

میں ایسے اجنبی کی طرح ہوں جہان میں

جس سے کسی نے یہ بھی نہ پوچھا؛ کہاں رہے

ہر لمحہ انتظار کی کیفیتِ شدید

اپنے ہی گھر میں جیسے کوئی بے اماں رہے

کچھ زندگی بھی ہم سے بہت خوش گماں نہ تھی

کچھ ہم بھی زندگی سے سے ذرا بد گماں رہے

ہیں لوگ اپنے آپ سے کس درجہ مطمئن

آخر مجھی پہ عیب مِرے کیوں عیاں رہے


ذکا صدیقی

No comments:

Post a Comment