اداسی
خوشی سے ماورا
ہماری کوکھ میں پلتی اداسی
ایک مکمل وجود رکھتی ہے
انتظار کو ہم اداسی سے مشروط نہیں کر سکتے
کیونکہ اس سمے کسی کے آنے کا عنصر
خوشی کا سبب ہے
میرے لیے اسٹیشن پر چلنے والی
آخری گاڑی کا نام اداسی ہے
اس کا ہارن کانوں میں
اداسی گھولنے کے سوا کچھ اور نہیں
تم پوچھتی ہو
اداسی کیا ہے؟
اداسی جھیل کے پار اس خواہش کا نام ہے
جسے پورا کرنے کے لیے اک عمر کافی نہیں
کینوس پر بکھرے رنگ
کمرے میں چھپی خاموشی
سمندروں اور صحراؤں میں ڈھلتا سورج
اور شام کے بعد پرندوں کی آواز
سب اداسی کے استعارے ہیں
ہماری تخلیق کردہ اداسی
رزق نہیں کہ بِن مانگے ملے
زاہد خان
No comments:
Post a Comment