جہاں چمن میں بہار آ کر بھی مسکرائے تو کچھ نہ پائے
وہاں پہ بھنورا کلی کے آگے سُروں میں گائے تو کچھ نہ پائے
شجر کی چہرے پہ انگلیوں کے قلم سے ہم نے ہے عشق لکھا
جنوں میں ہم نے یہ کارنامے بھی کر دِکھانے تو کچھ نہ پائے
گلاب رُخ کے دلوں پہ ہم نے پپیہے جیسا تڑپ کے یارو
محبتوں کے حسین نغمے بھی گنگنائے تو کچھ نہ پائے
تُو گل نسب ہے مہک یہ تیری حصارِ الفت تِرے لیے ہے
میں برگِ صحرا ہوں یوں بھی مجھ کو ہوا اڑائے تو کچھ نہ پائے
وہ اُڑتی تتلی کے پنکھ نوچے، گلاب کو بھی مروڑ ڈالے
خدا کرے وہ بہار رُت میں بھی مسکرائے تو کچھ نہ پائے
مرتضیٰ زمان گردیزی
No comments:
Post a Comment