Friday, 30 July 2021

وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہو گا

 وہ نام زہر کا رکھ دیں دوا تو کیا ہو گا

کہیں جو خون کو رنگِ حنا تو کیا ہو گا

چمن کی سمت چلا تو ہے کاروانِ بہار

جو راہزن ہی ہوئے رہنما تو کیا ہو گا

حریفِ سیلِ حوادث تو ہے سفینۂ قوم

جو نذرِ موج ہوا نا خدا تو کیا ہو گا

ترس رہا ہے زمانہ سکونِ دل کے لیے

سکونِ دل نہ میسر ہوا تو کیا ہو گا

چمن کے عشق میں اہلِ وفا یہ بھول گئے

بدل گئی جو چمن کی فضا تو کیا ہو گا

گزر رہی ہیں نگاہیں حدِ تجسس سے

ملا نہ کوئی جو درد آشنا تو کیا ہو گا

ہمارا خون تھا شادابیٔ چمن کا سبب

جو یہ چمن کے نہ کام آ سکا تو کیا ہو گا

غمِ حیات سے یوں تو ہیں اشکبار آنکھیں

نظر سے خون ٹپکنے لگا تو کیا ہو گا

بیاں کروں تو سہی ان کی داستانِ ستم

وہ ہو گئے اسے سن کر خفا تو کیا ہو گا

بس اک نگاہِ کرم تک ہے زندگی کا نشاط

جو یہ بھی ٹوٹ گیا آسرا تو کیا ہو گا

ابھی ہے مہلتِ حسنِ عمل، اٹھو ذوقی

جواب دینے لگے دست و پا تو کیا ہو گا


ایوب ذوقی

No comments:

Post a Comment