اب میرا انتظار کر
میں جھلملاتی کسی کہکشاں سے اتری ہوئی
نہ جانے کون سی دنیا میں آن بیٹھی ہوں
یہ راستے تیری موجودگی کی خاک لیے
میرے وجود کے اس دشت سے گزرتے ہیں
تُو وقتِ فجر جہاں مجھ پہ آ کہ برسا تھا
میں اوس اوس کہیں ڈالیوں پہ اُتری تھی
تُو رنگ رنگ کبھی بادلوں پہ دِکھتا تھا
یوں خواب خواب کسی تشنگی کو سہتے ہوئے
یہ کیا ہوا کہ میرے ہونٹ ہی جُھلس گئے ہیں
میں تیری دید کی کن حسرتوں سے گزری ہوں
کہ میری آنکھ بھی پتھرا گئی ہے اور دل بھی
میں اپنی زیست کے اس بیکراں سمندر میں
نہ جانے کتنی دفعہ ڈوب کر ابھر آئی
مگر یہ کیا کہ مجھے ڈُوبنا اُبھرنا اب
فضول وقت گزاری کا کام لگتا ہے
یقین کر میں ہراساں ہوں یہ بتانے سے
کہ تیری یاد کی وحشت زدہ صداؤں نے
عجیب طرح کی آسودگی عطا کی ہے
میں جانتی ہوں کہ تُو خود پلٹنا چاہتا ہے
مگر میں سوچ رہی ہوں کہ تیرے آنے پر
جُھلستے ہونٹ تیرے ہاتھ کیسے چُومیں گے
تیری نظر کی چمک سے بھی جو جلیں گے نہیں
وہ دل اور آنکھ محبت کے لوٹ آنے پر
خوشی کے نِیر بھلا کس طرح بہائیں گے
انجیل صحیفہ
No comments:
Post a Comment