میرا وجود اس کو گوارا نہیں رہا
یوں راہ زندگی میں سہارا نہیں رہا
فرقت میں اسکی صبر و تحمل تھا عشق میں
وہ آ گیا تو ضبط کا یارا نہیں رہا
ہر لحظہ شوقِ حسن میں یہ بےقرار ہے
اب میرا دل کے ساتھ گزارا نہیں رہا
میں اضطرابِ عشق میں حد سے گزر گیا
ایسا مرض بڑھا ہے کہ چارہ نہیں رہا
محفل سے میں اٹھا تو عجب تبصرہ ہوا
کہنے لگا کہ؛ اب یہ ہمارا نہیں رہا
ہر چند بے رُخی میں وہ حد سے گزر گیا
کیسے کہوں کہ وہ مجھے پیارا نہیں رہا
سوز نہاں کی آگ بھڑکتی ہے اس قدر
یوں لگ رہا ہے عشق کا یارا نہیں رہا
میں جل کے راکھ ہو گیا ہوں سوزِ عشق سے
میں زندگی میں مثل شرارا نہیں رہا
جب دردِ دل نہیں رہا تو یوں لگا مجھے
گویا کہ زندگی کا سہارا نہیں رہا
جب موت آ گئی تو نئی زندگی ملی
اب بحرِ زندگی کا کنارا نہیں رہا
زاہد چوہدری
No comments:
Post a Comment