وقت بے وقت کی خوشی بھی نہیں
اب تو اے یار میں دُکھی بھی نہیں
کچھ تو میں بھی نھیں رہا سائل
اور یہ آپ کی گلی بھی نہیں
وہ تو ہے ہی میرا کُھلا دشمن
دوستی مجھ سے آپ کی بھی نہیں
کتنا سُنسان باغ ہے کہ یہاں
آدمی بھی نہیں، پری بھی نہیں
تم تو کہتے تھے جان ہے اپنی
وہ تمہیں دیکھ کے رُکی بھی نہیں
اِس کہانی کا انت کیا ہو گا
اِس کہانی میں تو کوئی بھی نہیں
اُس میں اِک بات کی کمی ہے تو
لیکن ایسی کہ جو کمی بھی نہیں
علی زریون
No comments:
Post a Comment