دریا ہے یہ دنیا پگلی، اتنی چاہ نہ پال
جتنی سے گاگر بھر جاوے، اتنی آس ہی ڈال
جس حیرت کو چُھو سکتی ہو اس حیرت کے دام
اس منڈی میں جو بھی ہے، سب بکنے والا مال
ہر بھاشا کے اپنے منتر، ہر منتر کے جاپ
کچھ لوگوں کے ہاتھ میں پتھر، کچھ کے ہاتھ کدال
تجھ کو کچھ بھی بولے کوئی، تجھ کو کیا پروا
میں تو تجھ کو سب کچھ جانوں، میری مشکل ٹال
اک جانے والے سے پھیلا، سارے شہر میں روگ
سب لوگوں کے پیلے چہرے سب کی آنکھیں لال
بابر علی اسد
No comments:
Post a Comment