Saturday, 31 July 2021

دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں

 دالان میں کبھی کبھی چھت پر کھڑا ہوں میں

سایوں کے انتظار میں شب بھر کھڑا ہوں میں

کیا ہو گیا کہ بیٹھ گئی خاک بھی مِری

کیا بات ہے کہ اپنے ہی اوپر کھڑا ہوں میں

پھیلا ہوا ہے سامنے صحرائے بے کنار

آنکھوں میں اپنی لے کے سمندر کھڑا ہوں میں

سناٹا میرے چاروں طرف ہے بچھا ہوا

بس دل کی دھڑکنوں کو پکڑ کر کھڑا ہوں میں

سویا ہوا ہے مجھ میں کوئی شخص آج رات

لگتا ہے اپنے جسم سے باہر کھڑا ہوں میں

اک ہاتھ میں ہے آئینۂ ذات و کائنات

اک ہاتھ میں لیے ہوئے پتھر کھڑا ہوں میں


سالم سلیم

No comments:

Post a Comment