محبتوں کے مقالے سمجھ سے باہر ہیں
جگہ جگہ پہ حوالے سمجھ سے باہر ہیں
حسین چہرے پہ غم کا نزول کیوں کر ہے
نئے مکان میں جالے سمجھ سے باہر ہیں
بندھے ہیں ہاتھ تمہارے سمجھ میں آتا ہے
مگر زباں پہ تالے سمجھ سے باہر ہیں
"نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں"
ہمارے چاہنے والے سمجھ سے باہر ہیں
کسی کی زلف کی خوشبو چرا کے جانے پر
ہوا کے ہاتھ پہ چھالے سمجھ سے باہر ہیں
فہیم الرحمٰن آذر
No comments:
Post a Comment