Friday 31 January 2020

جان ہوتے ہوئے بے جان برے لگتے ہیں

جان ہوتے ہوئے، بے جان برے لگتے ہیں
خوش ادا لوگ پریشان برے لگتے ہیں
اچھی لگتی ہیں مجھے نیلگوں آنکھیں، لیکن
ان میں ٹھہرے ہوئے طوفان برے لگتے ہیں
تیری رحمت سے تو انکار نہيں ہے، مولا
جیب خالی ہو تو مہمان برے لگتے ہیں

اچھے اچھے دوست بھی آخر حماقت کر گئے

اچھے اچھے دوست بھی آخر حماقت کر گئے
کچھ سیاسی ہو گئے اور کچھ وکالت کر گئے
شکر ہے کہ بچ گئے دونوں بڑے نقصان سے
میں محبت کر گیا، اور وہ تجارت کر گئے
سوچتا ہوں تو گھڑی بھر کو یقیں آتا نہيں
کیسے کیسے لوگ اس دل پر حکومت کر گئے

اک غیر نے لکھا ہے کہ تو غیر نہيں ہے

اک غیر نے لکھا ہے کہ تُو غیر نہيں ہے
لگتا ہے کہ اس بار، مِری خیر نہيں ہے
تم کتنی محبت سے مجھے دیکھ رہے ہو
حالانکہ مِرا تم سے کوئی بَیر نہيں ہے
آؤ میں دِکھاتا ہوں تمہیں شہرِ خموشاں
یہ گھومنا پھرنا تو کوئی سیر نہيں ہے

کچھ فاصلے پہ ٹھہرا ہوا ہوں چٹان سے

کچھ فاصلے پہ ٹھہرا ہوا ہوں چٹان سے
اِک بت خریدنا ہے، خدا کی دُکان سے
یہ کائنات ہاتھ میں آنی تو ہے نہيں
پھر کس لیے لپٹتا پِھروں آسمان سے
مہمان بن کے آیا ہے، مہمان بن کے رہ
اتنا لگاؤ ٹھیک نہيں میزبان سے

Thursday 30 January 2020

میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ

نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ
میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ
سو یوں ہوا کہ پریشانیوں میں پینے لگے
غمِ حیات سے منہ موڑتے ہوئے سگریٹ
مشابہ کتنے ہیں ہم سوختہ جبینوں سے
کسی ستون سے سر پھوڑتے ہوئے سگریٹ

یہ محبت ہے بند غار میاں

یہ محبت ہے بند غار میاں
ہو رہے ہو کہاں فرار میاں
کوئی غم گدگدا رہا ہے کیا؟
ہنس رہے ہو جو بار بار میاں
کسی گِنتی میں ہم نہیں آتے
کیجیۓ خود کو کیا شمار میاں

اتنے غم تو میرے رومال میں آ جاتے ہیں

لوگ جب زعم کے جنجال میں آ جاتے ہیں
اوجِ افلاک سے پاتال میں آ جاتے ہیں
تُو بھی اے زندگی! کیا یاد کرے گی ہم کو
آج خود چل کے تِرے جال میں آ جاتے ہیں
زیرِ انگشت کسی حرف کا آنا، جیسے
شعر کچھ یوں بھی مِری فال میں آ جاتے ہیں

ڈیڑھ کمرے کی ایک دنیا میں

صورت حال

ڈیڑھ کمرے کی ایک دنیا میں
ایک بستر ہے، کچھ کتابیں ہیں
آنے جانے کا ایک دروازہ
خیر آتا بھی کون ہے گھر میں؟
نام لیوا رفاقتوں کے امیں

جو بچی ہے گزار دوں اچھا

جو بچی ہے گزار دوں؟ اچھا
زندگی تجھ پہ وار دوں؟ اچھا
اور تو کچھ نہیں ہے میرے پاس
خواب ہیں، مستعار دوں؟ اچھا
آزما لوں تجھے وفا پیکر
تجھ کو راہِ فرار دوں؟ اچھا

چپ رہ کر اچھا کرتا ہوں

سناٹے برپا کرتا ہوں
چپ رہ کر اچھا کرتا ہوں
تم کیا چاہتی ہو؟ تم سوچو
پھر دیکھو میں کیا کرتا ہوں
ایک نام کا وِرد پکڑ کے
پانی پر ٹِہلا کرتا ہوں

جیب میں آسمان رکھتا ہوں

ٹوٹی پھوٹی کمان رکھتا ہوں
پھر بھی سینے کو تان رکھتا ہوں
ایک بستر کے بس کی بات نہیں
مدتوں کی تھکان رکھتا ہوں
تا کہ مجھ کو وہ سوچتی ہی رہے
میں اسے بد گمان رکھتا ہوں

Wednesday 29 January 2020

تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے

تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
ہم آپ اپنی محبت سے شرمسار ہوئے
بلا کی رَو تھی، ندیمانِ آبلہ پا کو
پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے
گِلہ اسی کا کِیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے

جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا

جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا
مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا
نہ تھی اتنی کڑی تازہ مسافت
پرانے ہمسفر یاد آ گئے کیا
یہاں‌کچھ آشنا سی بستیاں تھیں
جزیروں کو سمندر کھا گئے کیا

ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا

روز کی مسافت سے چور ہو گئے دریا
پتھروں کے سینوں پر تھک گئے، سو گئے دریا
جانے کون کاٹے کا فصل لعل و گوہر کی
ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا
اے سحابِ غم کب تک یہ گریز آنکھوں سے
انتظارِ طوفان میں خشک ہو گئے دریا

ہم تیرے نہیں تھے جا نہیں تھے

اتنے بھی تو وہ خفا نہیں تھے
جیسے کبھی آشنا نہیں تھے
مانا کہ بہم کہاں تھے ایسے
پر یوں بھی جدا جدا نہیں تھے
تھی جتنی بساط کی پرستش
تم بھی تو کوئی خدا نہیں تھے

کہاں ہے وحشت نمناک میری

کہاں ہے وحشتِ نم ناک میری

بہت اڑنے لگی ہے خاک میری

نہ اتنا ذکر ہو باغِ عدن کا

وہیں چھینی گئی پوشاک میری

بدن کی شاخ سے میں اڑ چکا تھا

کہاں رکھتا رہا وہ تاک میری

وجود وجد میں آئے تو عشق ہوتا ہے

دھمال دھول اڑائے تو عشق ہوتا ہے
وجود وجد میں آئے تو عشق ہوتا ہے
بہا رہا ہے وہ جلتے چراغ پانی میں
اتر کے تہہ میں جلائے تو عشق ہوتا ہے
تپش تو ہوتی ہے لیکن دھواں نہیں ہوتا
جو آگ اشک لگائیں تو عشق ہوتا ہے

Saturday 25 January 2020

یہ استاد واپس کر اے سوتیلی ماں

یہ استاد واپس کر اے سوتیلی ماں
یہ دشمن کے بچوں کو نہیں پڑھاتا
یہ اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے
دشمن کے بچوں کو غداری پڑھائی جاتی ہے
اپنے بچوں کو امن اور حب الوطنی پڑھائی جاتی ہے
ان بچوں کا استاد واپس کر اے سوتیلی ماں

برِصغیر رقص میں ہے

آج پھر
برِصغیر رقص میں ہے
خار دار باڑھ کے اُس طرف بھی
خار دار باڑھ کے اِس طرف بھی
سرحدوں کی سرخ لکیروں پر بھی
اور مانگ رہا ہے آزادی
آزادی کے بعد

ایمنیسٹی کے تحت ہمارے اثاثے پیش ہیں

اثاثوں کی ڈیکلیئریشن

ایمنیسٹی کے تحت ہمارے اثاثے
پیش ہیں عالی جاہ
ایک عدد زباں
جو بولنا جانتی ہے
دماغ

سیاست تنگ گلیوں کے چور دروازوں

سیاست تنگ گلیوں کے چور دروازوں سے گزرتی رہی ہے
یہ تو معلوم تھا
مگر ایک دن سیاست طوائف کا کوٹھا بنا دی جائے گی 
یہ خبر نہ تھی
یہ بھی خبر نہ تھی
کہ سیاست کی زبان ننگی کر کے یوں چوراہے پر نچائی جائے گی 

ہم شناختی کارڈ پر لکھے ہوئے لوگ

ہم شناختی کارڈ پر لکھے ہوئے لوگ 

بخدمت جناب افسرِ اعلیٰ
چیئرمین پیمرا
گزارش ہے کہ
وہ بوٹ
جو چوراہے پر ہم رعایا کے منہ پر مارا گیا تھا

Friday 24 January 2020

ہمارے جیسوں کو تقسیم کر کے مارتے ہیں

وہ چاروں سمت سے تنظیم کر کے مارتے ہیں
ہمارے جیسوں کو تقسیم کر کے مارتے ہیں
مذاکرات کے پھندے لگا کے ہیں رکھتے
معاہدات کو تسلیم کر کے مارتے ہیں
فنون جبر و ستم میں بلا کے ہیں مشاق
خیال و خواب کی تجسیم کر کے مارتے ہیں

گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے

گیت لکھے بھی تو ایسے کہ سنائے نہ گئے
زخم لفظوں میں یوں اترے کہ دکھائے نہ گئے
تیرے کچھ خواب جنازے ہیں میری آنکھوں میں
وہ جنازے جو کبھی گھر سے اٹھائے نہ گئے
ہم نے قسمیں بھی اٹھا دیکھیں مگر بھول گئے
ہم نے وعدے بھی کیے اور نبھائے نہ گئے

آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں

آ کسی روز کسی دکھ پہ اکٹھے روئیں
جس طرح مرگ جواں سال پہ دیہاتوں میں
بوڑھیاں روتے ہوئے بین کیا کرتی ہیں
جس طرح ایک سیاہ پوش پرندے کے کہیں گرنے سے
ڈار کے ڈار زمینوں پہ اتر آتے ہیں
چیختے، شور مچاتے ہوۓ، کُرلاتے ہوئے

دل میاں ریت کی عمارت ہے

جنبشِ لفظ بھی جسارت ہے
عشق تہذیب سے عبارت ہے
تم جو اوجھل ہوئے تو علم ہوا
دل میاں ریت کی عمارت ہے
تم جو اترے ہو آزمانے پر
مجھ کو بھی ہجر میں مہارت ہے

اپنے حصے میں رات لے آیا

وہ جو سورج خرید کرتا تھا
اپنے حصے میں رات لے آیا
ہار دیکھی، تو وہ ہنر والا
لپیٹ کر ہی بساط لے آیا
اپنے حصے میں میں نہیں آیا
میں بچا تھا وہ ساتھ لے آیا

عشق ہم سے نہیں دوبارہ ہوا

یہ ہے الفت کی جنگ ہارا ہوا
کل تعارف کہیں ہمارا ہوا
ہجر کے میں خلاف بولوں گا
یہ آسماں سے نہیں اتارا ہوا
ہم نے کرنا تو بارہا چاہا
عشق ہم سے نہیں دوبارہ ہوا

جنتر منتر دھاگے شاگے جادو ٹونے والوں نے

جنتر منتر دھاگے شاگے جادو ٹونے والوں نے
تیری خاطر کیا کیا سیکھا تجھ کو کھونے والوں نے
ایک طلسمی سرگوشی پر میں نے مڑ کر دیکھا تھا
مجھ کو پتھر ہوتے دیکھا پتھر ہونے والوں نے
اچھے کی امید پہ کتنے مشکل دن کٹ جاتے ہیں
خواب محل کے دیکھے اکثر خاک پہ سونے والوں نے

پھر فیصلہ کروں گی رفاقت کی بانٹ کا

پھر فیصلہ کروں گی رفاقت کی بانٹ کا
میں لطف لے رہی ہوں ابھی دل کی ڈانٹ کا
اگنے لگا ہے مجھ میں جو تو شاخ شاخ عشق
بس وقت آ گیا ہے تِری کاٹ چھانٹ کا
'بھیجا ہے تم نے ٹیکسٹ مجھے 'آئی وانٹ یو
مطلب تو جانتے ہو نا تم 'آئی وانٹ' کا؟

سائل نہیں ہوں ہاتھ میں کاسا ضرور ہے

سائل نہیں ہوں، ہاتھ میں کاسہ ضرور ہے
یہ زندگی کے دکھ کا خلاصہ ضرور ہے
گو کِینہ پالنا مجھے ہرگز نہیں پسند
لیکن مِرے مزاج کا خاصہ ضرور ہے
میں آخری چراغ ہوں، اے شخص احتیاط
تُو ہے نہیں ہوا تو، ہوا سا ضرور ہے

نہ تصاویر نہ تزئین سے بن سکتی تھی

نہ تصاویر، نہ تزئین سے بن سکتی تھی
یہ غزل اچھی، مضامین سے بن سکتی تھی
سات کے سات بھرے رنگ تِری آنکھوں میں
ورنہ تصویر تو دو تین سے بن سکتی تھی
تم نے مانگی ہی نہیں ساتھ دعائیں میرے
بات بگڑی ہوئی آمین سے بن سکتی تھی

Thursday 23 January 2020

ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی

دل سے طاعت تِری نہیں ہوتی
ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی
ضبطِ غم بھی محال ہے ہم سے
اور فریاد بھی نہیں ہوتی
راس آتی نہیں کوئی تدبیر
یاسِ جاوید بھی نہیں ہوتی

دل ناداں عبث اداس نہیں

تم نہیں پاس، کوئی پاس نہیں
اب مجھے زندگی کی آس نہیں
کشمکش میں نہ روح پڑ جائے
یوں تو مرنے کا کچھ ہراس نہیں
لالہ و گل بجھا سکیں جس کو
عشق کی پیاس ایسی پیاس نہیں

غم سہتے سہتے مدت تک ایسی بھی حالت ہوتی ہے

غم سہتے سہتے مدت تک ایسی بھی حالت ہوتی ہے
آنکھوں میں اشک امڈتے ہیں رونے سے نفرت ہوتی ہے
جب رات کا سناٹا ہوتا ہے دل میں خلوت ہوتی ہے
تم چاندنی جیسے چھٹکا دو ایسی کیفیت ہوتی ہے
عالم پر جیسے چھائے ہوں محبوب کی گود میں آئے ہوں
اب دل کی محبت میں اکثر ایسی محویت ہوتی ہے

دل سے کانٹا جدا کرے کوئی

نازش گل ہوا کرے کوئی
دل سے کانٹا جدا کرے کوئی
بہتے ہیں بات بات پر آنسو
ایسی آنکھوں کو کیا کرے کوئی
جب کسی بات میں اثر ہی نہیں
کیا دوا، کیا دعا کرے کوئی

حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں

محبت تم سے ہے لیکن جدا ہیں
حسیں ہو تم تو ہم بھی پارسا ہیں
ہمیں کیا اس سے وہ کون اور کیا ہیں
یہ کیا کم ہے حسیں ہیں، دلربا ہیں
زمانے میں کسے فرصت جو دیکھے
سخنور کون شے ہیں، اور کیا ہیں

پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے

درد ہو، دکھ ہو تو دوا کیجے
پھٹ پڑے آسماں تو کیا کیجے
نہیں علاجِ غمِ ہجرِ یار کیا کیجے 
تڑپ رہا ہے دلِ بیقرار کیا کیجے 
اک ستم ہو تو جان دے دیجئے
ہو ستم پر ستم تو کیا کیجے

عجیب دریا ہے اپنے پانی سے لڑ رہا ہے

پرانا قصہ نئی کہانی سے لڑ رہا ہے
نحیف بوڑھا جو زندگانی سے لڑ رہا ہے
یہ کیسی ضد ہے کہ دونوں مجھ میں ہی رہنا چاہیں
مِرا بڑھاپا مِری جوانی سے لڑ رہا ہے
وہ میرے سینے میں رہ کے بھی مجھ سے لڑ رہی ہے
عجیب دریا ہے، اپنے پانی سے لڑ رہا ہے

خزاں پسند ہیں سارے بہار دشمن ہیں

شرابیوں کی نظر میں تو چار دشمن ہیں
جہاں میں سینکڑوں واعظ، خمار دشمن ہیں
ہمارے شہر میں آ کر نہ پھول ڈھونڈ، یہاں
خزاں پسند ہیں سارے، بہار دشمن ہیں
تو آپ حق کے طرفدار تھے، سو مجرم ہو
نہ گھر سے نکلو کہ باہر ہزار دشمن ہیں

تو اگر سید ہے تو ایڑھی رگڑ چشمہ نکال

بات ایسی جو قیامت تک رہے زندہ، نکال
شعر خود بن جائے گا تُو صرف اک مصرع نکال
تُو اگر سید ہے تو پھر در بدر جاتا ہے کیوں؟
تُو اگر سید ہے تو ایڑھی رگڑ، چشمہ نکال
کیا عداوت ہے پرندوں سے، گرائے کیوں شجر؟
اب بدن پر اوڑھ سورج، دھوپ سے سایہ نکال

اے مرے خدا مجھے شک تھا یہ

بکواسیات

اے مِرے خدا مجھے شک تھا یہ
تِری ذات پر، کہ تُو بے نیاز ہے کس طرح؟
اے مِرے خدا! تُو احد بھی ہے
تُو صمد بھی ہے، تُو ہی لم یلد
تُو ولم یو لد، تُو غفور ہے، تُو رحیم ہے، تُو کریم ہے

Wednesday 22 January 2020

جو ہمارے مرید ہو جائیں

جو ہمارے مرید ہو جائیں
پیر خواجہ فرید ہو جائیں
ان دنوں سب کو ہم میسر ہیں
آئیں، اور مستفید ہو جائیں
یہ مسلمانوں کو سہولت ہے
کچھ بھی کر کے شہید ہو جائیں

کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں تِرے ساتھ ہوں جب تک مِرے جیسا نہ ملے
کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے
مجھ کو اک رنگ عطا کر تاکہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مِرا چہرہ نہ ملے

Tuesday 21 January 2020

سورج سے اختلاف بھی کرنا پڑا مجھے

سورج سے اختلاف بھی کرنا پڑا مجھے
گھر میں نیا شگاف بھی کرنا پڑا مجھے
تاریخ پر جمی ہوئی صدیوں کی گرد تھی
اس آئینے کو صاف بھی کرنا پڑا مجھے
میں آپ اپنی ذات کا تنہا نقیب تھا
خود اپنے برخلاف بھی کرنا پڑا مجھے

میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے

اپنے ہی گھر کے دروبام سے جھگڑا کر کے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے
جاؤ، تم خواب کنارے پہ لگاؤ خیمے
میں بھی آتا ہوں ذرا شام کو چلتا کر کے
پہلے پہلے یہاں جنگل تھا، گھنیرا جنگل
کاٹنے والوں نے چھوڑا اسے رَستا کر کے

زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس

زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس
دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی
تجھ کو ناراض کروں ، روز مناؤں واپس
وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی
کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس

میں عام آدمی ہوں مرے عام عام دکھ

میں عام آدمی ہوں مِرے عام عام دکھ
لیکن مجھے عزیز ہیں میرے تمام دکھ
اب ڈالنا پڑے گا مجھے دل میں اک شگاف
کرنا تو ہے فرار تِرا بے لگام دکھ
کل رات میرے خواب کا منظر عجیب تھا
جھولی میں بھر کے لے گیا ماہِ تمام دکھ

کسی کو کچھ نہیں معلوم کس کو کیا دکھ ہے

کسی کو کچھ نہیں معلوم کس کو کیا دکھ ہے
تمام چہروں پہ دکھ، اور ایک سا دکھ ہے
ہوا درخت کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے
تجھے خبر نہیں تیرا نیا نیا دکھ ہے
بھلا تُو کس کے سہارے حیات کاٹے گی؟
ہمارے پاس تو پھر بھی ہرا بھرا دکھ ہے

بند آنکھوں سے نہ حسن شب کا اندازہ لگا

بند آنکھوں سے نہ حسنِ شب کا اندازہ لگا
محملِ دل سے نکل، سر کو ہوا تازہ لگا
دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر
گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا
ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ
ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگدل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا
ڈوبا کچھ اس طرح سے مِرا آفتابِ دل
سب کچھ ہوا یہ پھر نہ سحر آشنا ہوا
یوں اسکے در پہ بیٹھے ہیں جیسے یہیں کے ہوں
ہائے! یہ دردِ عشق جو زنجیرِ پا ہوا

آخر ہم نے طور پرانا چھوڑ دیا

آخر ہم نے طَور پرانا چھوڑ دیا 
اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا 
منظر بھی سب بانجھ رُتوں میں ڈوب گئے 
آنکھوں پر بھی پہرہ بٹھانا چھوڑ دیا 
نظروں پر کھڑکی کے پٹ دیوار کیے 
دروازوں میں اس کا سجانا چھوڑ دیا 

ہم حد اندمال سے بھی گئے

ہم حدِ اندمال سے بھی گئے
اب فریبِ خیال سے بھی گئے
دل پہ تالا،۔ زبان پر پہرہ
یعنی اب عرضِ حال سے بھی گئے
جامِ جَم کی تلاش لے ڈوبی
اپنے جامِ سفال سے بھی گئے

Monday 20 January 2020

دل حسن کو دان دے رہا ہوں

دل حسن کو دان دے رہا ہوں
گاہک کو دکان دے رہا ہوں
شاید کوئی بندۂ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
جو فصل ابھی کٹی نہیں ہے
میں اس کا لگان دے رہا ہوں

ٹھہر جاتے ہیں کہ آداب سفر جانتے ہیں

ٹھہر جاتے ہیں کہ آداب سفر جانتے ہیں
ورنہ منزل کو بھی ہم راہگزر جانتے ہیں
نامرادان محبت کو حقارت سے نہ دیکھ
یہ بڑے لوگ ہیں، جینے کا ہنر جانتے ہیں
شرط ویرانی سے واقف ہی نہیں شہر کے لوگ
در و دیوار بنا کر اسے گھر جانتے ہیں

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے

زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں، اور ہمسفری لگتی ہے
آنکھ مانوسِ تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے

Sunday 19 January 2020

عشق کے کشف و کرامات سمجھ لیتے ہیں

عشق کے کشف و کرامات سمجھ لیتے ہیں
لوگ سادہ ہیں، مگر بات سمجھ لیتے ہیں
زندگی چین سے جنگل میں گزر جاتی ہے
جب درختوں کے خیالات سمجھ لیتے ہیں
وادیاں اپنی جگہ دکھ بھی الگ رکھتی ہیں
لوگ جنگل کو مضافات سمجھ لیتے ہیں

سرمئ جھیل کنارے سے اگر لی جاتی

سرمئی جھیل کنارے سے اگر لی جاتی
پھر تو تصویر بڑی ڈوب کے دیکھی جاتی
توڑ لیتے ہیں اسے ٹھیک سے رکھتے رکھتے
قیمتی چیز فقیروں کو نہیں دی جاتی
حوصلہ دے کے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے
رونے والوں سے حقیقت نہیں پوچھی جاتی

پیرہن وہ جو کسی طور معطر ہی نہیں

پیرہن وہ جو کسی طور معطر ہی نہیں
کاغذی پھول تِرا حاصلِ مصدر ہی نہیں
آپ تصویر بناتے ہوئے تھک جائیں گے
میرے چہرے کے کئی رنگ میسر ہی نہیں
پوچھ مت کتنی خراشیں تھیں مِرے ماتھے پر
جب یہ معلوم ہوا عشق یقیں پر ہی نہیں

Saturday 18 January 2020

یار کے پہلو میں خالی میری جا تھی میں نہ تھا

جشن تھا، عیش و طرب کی انتہا تھی، میں نہ تھا
یار کے پہلو میں خالی میری جا تھی، میں نہ تھا
اس نے کب برخاست اے دل! محفلِ معراج کی
کس سے پوچھوں رات کم تھی یا سَوا تھی میں نہ تھا
میں تڑپ کر مر گیا دیکھا نہ اس نے جھانک کر
اس ستمگر کو عزیز اپنی حیا تھی، میں نہ تھا

ترے واسطے جان پہ کھیلیں گے ہم

ترے واسطے جان پہ کھیلیں گے ہم یہ سمائی ہے دل میں خدا کی قسم
رہ عشق سے اب نہ ہٹیں گے قدم ہمیں اپنے ہی صدق و صفا کی قسم
مِرے پرزے اگرچہ اڑائیے گا تو گلِ زخم سے مہکے گی عشق کی بُو
کھنچے تیغ تِری تو رگڑ دوں گلو، مجھے تیرے ہی جور و جفا کی قسم
مِرا نام جو یار ہے پوچھ رہا، میں بتا دوں تجھے جو لقب ہے مِرا
مجھے کہتے ہیں کشتۂ ناز و ادا، تِرے غمزۂ ہوشربا کی قسم

کیا درد جائے گا جو دوا کا اثر نہیں

رُلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
آنکھیں ہیں تر تو ہوں مِرا دامن تو تر نہیں
امیدِ وصل سے بھی تو صدمہ نہ کم ہوا
کیا درد جائے گا جو دوا کا اثر نہیں
دن کو بھی داغ دل کی نہ کم ہو گی روشنی
یہ لو ہی اور ہے، یہ چراغِ سحر نہیں

ہم ہیں اور حسرت دیدار ترے کوچے میں

روز خوں ہوتے ہیں دو چار تِرے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار! ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مِرے اشعار ترے کوچے میں
تُو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں

دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم

کم فہم ہیں تو کم ہیں پریشانیوں میں ہم
دانائیوں سے اچھے ہیں نادانیوں میں ہم
شاید رقیب ڈوب مریں بحرِ شرم میں
ڈوبیں گے موجِ اشک کی طغیانیوں میں ہم
غیروں کے ساتھ آپ بھی اٹھتے ہیں بزم سے
لو میزبان بن گئے مہمانیوں میں ہم

میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا

میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا
تغیر وضع کی ہے، اشارہ وداع کا
یعنی جفا پہ خوگرِ الطاف کب رہا
'میں رشک سے چلا تو کہا، 'بے سبب چلا
'اس پر جو رہ گیا تو کہا، 'بے سبب رہا

رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا

رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا، لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا

Friday 17 January 2020

سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو

سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو
یہ طاقِ چشم اب اتنا بھی کیا خراب نہ ہو؟
ازل ابد میں ٹھنی ہے، سو میں نکلتا ہوں
مِری کڑی سے تِرا سلسلہ خراب نہ ہو
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں 
مِری وجہ سے تِرا سلسلہ خراب نہ ہو 

اتنی آوازیں نہیں دنیا میں جتنا شور ہے

اس گلی میں کچھ نہیں، بس گھٹتا بڑھتا شور ہے 
اک مکیں کی خامشی ہے، اک مکاں کا شور ہے 
شامِ شور انگیز! یہ سب کیا ہے بے حد و حساب 
اتنی آوازیں نہیں، دنیا میں جتنا شور ہے 
آنگن آنگن تکیہ برداروں کو اب کیا کیا بتائیں 
آنکھ میں کیا خواب ہے اور خواب میں کیا شور ہے 

مسلسل ایک ہی تعزیر سے تنگ آ گئے ہیں

کچھ آنے والوں کی تاخیر سے تنگ آ گئے ہیں
یہ گھر تعمیر در تعمیر سے تنگ آ گئے ہیں
کئی عالم میں شور اٹھتا ہے اس زنجیرِ پاسے
کئی عالم مِری زنجیر سے تنگ آ گئے ہیں
تو کیا اس راز سے سینہ چھڑا لیں، سانس لے لیں
ہم اس تصویر میں، تصویر سے تنگ آ گئے ہیں

ہوا کے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

ہوا کے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے، جانتے ہیں 
کہ دن کیسے ہوا، جب رات بھی ہوتی نہیں تھی

Thursday 16 January 2020

رائیگانی (حصہ اول)

رائیگانی 
(حصہ اول)

میں کمرے میں پچھلے اکتیس دنوں سے
فقط اس حقیقت کا نقصان گننے کی کوشش میں الجھا ہوا ہوں
کہ تُو جا چکی ہے
تجھے رائیگانی کا رتی برابر اندازہ نہیں ہے
تجھے یاد ہے وہ زمانہ

رائیگانی (حصہ دوم)

رائیگانی 
(حصہ دوم)

جو بات گنتی کے چند دنوں سے شروع ہوئی تھی
وہ سالہا سال تک چلی ہے
کئی زمانوں میں بٹ گئی ہے
میں ان زمانوں میں لمحہ لمحہ تمہاری نظروں کے بن رہا ہوں
میں اب تلک بھی تمہارے جانے کا باقی نقصان گن رہا ہوں

شکست خواب

شکستِ خواب

مِرے ایلیا
تیری آنکھوں میں یہ جو تجسس کے شعلے
رواں ہیں
دواں ہیں
مجھے سب خبر ہے
کہ ان میں سوالوں

Tuesday 14 January 2020

شیروں کو آزادی ہے

آزادی

شیروں کو آزادی ہے آزادی کے پابند رہیں‌
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں کھائیں‌ پییں آنند رہیں‌
شاہیں کو آزادی ہے، آزادی سے پرواز کرے
ننھی منی چڑیوں پر جب چاہے مشقِ ناز کرے
سانپوں کو آزادی ہے ہر بستے گھر میں بسنے کی
ان کے سر میں زہر بھی ہے اور عادت بھی ہے ڈسنے کی

عشق نے حسن کی بے داد پہ رونا چاہا

عشق نے حسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تخمِ احساسِ وفا، سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر
ناخدا نے مجھے ساحل پہ ڈبونا چاہا
سنگدل کیوں نہ کہیں بتکدے والے مجھ کو
میں نے پتھر کا پرستار نہ ہونا چاہا

موت کے چہرے پہ ہے کیوں مردنی چھائی ہوئی

موت کے چہرے پہ ہے کیوں مُردنی چھائی ہوئی 
دیکھنا کون آ گیا؟ کیوں ٹل گئی آئی ہوئی 
کوئی بدلی تو نہیں ابھری افق پر دیکھنا؟
پھر فضائے توبہ پر ہے بے دلی چھائی ہوئی 
سیکھ دنیا ہی میں زاہد حور سے ملنے کے ڈھنگ 
ورنہ روئے گا کہ جنت میں بھی رسوائی ہوئی 

دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا

دھوپ کے ساتھ گیا ساتھ نبھانے والا
اب کہاں آئے گا وہ لوٹ کے آنے والا
ریت پر چھوڑ گیا نقش ہزاروں اپنے
کسی پاگل کی طرح نقش مٹانے والا
سبز شاخیں کبھی ایسے تو نہیں چٹخی ہیں
کون آیا ہے پرندوں کو ڈرانے والا؟

لازم کہاں کہ سارا بدن خوش لباس ہو

لازم کہاں کہ سارا بدن خوش لباس ہو
میلا بدن پہن کے نہ اتنا اداس ہو
اتنا نہ پاس آ کہ تجھے ڈھونڈتے پھریں
اتنا نہ دور جا کہ ہمہ وقت پاس ہو
ایک جوئے بے قرار ہو کیوں دلکشی تِری
کیوں اتنا تشنہ لب مِری آنکھوں کی پیاس ہو

وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے

وہ دن گئے کہ چھپ کے سر بام آئیں گے 
آنا ہوا تو اب وہ سرِ عام آئیں گے 
سوچا نہ تھا کہ ابرِ سیہ پوش سے کبھی 
کوندے تیرے بدن کے مرے نام آئیں گے 
اس نخلِ نا مراد سے جو پات جھڑ گئے 
اندھی خنک ہواؤں کے اب کام آئیں گے 

Monday 13 January 2020

آج کا رانجھا کوئی ہیر نہیں لے سکتا

عشق کو باعثِ توقیر نہیں لے سکتا
آج کا رانجھا کوئی ہیر نہیں لے سکتا
یہ بد نصیب اذیت میں ٹوٹتا ہوا جسم
تمہارے لمس کی تاثیر نہیں لے سکتا
ایک ہی صف میں کھڑے ہیں مگر مِرے بھائی
اسد اللہ کی جگہ مِیر نہیں لے سکتا

اک تری یاد ہے اک روزگار کا دکھ ہے

اک تِری یاد ہے اک روزگار کا دکھ ہے
اس پہ اک اور ستم انتظار کا دکھ ہے
میں خدائی کا طلبگار نہیں ہوں، لیکن
ہاں، مگر تھوڑا بہت اختیار کا دکھ ہے
تُو اکیلا ہی نہیں قافلے میں اور بھی ہیں
یہ فقط تیرا نہیں، بے شمار کا دکھ ہے

کرایہ دار کو ہوتا ہے نا مکان کا دکھ

کرایہ دار کو ہوتا ہے ناں مکان کا دکھ
اور تُو ہے کہ سمجھتا ہی نہیں جان کا دکھ
سکوت تھا تو مجھے مسئلہ سخن سے رہا
وہ بات کرنے لگا ہے تو اب زبان کا دکھ
پروں کو کاٹنے والے کی خیر ہو مولا 
اسے غرور مبارک، مجھے اڑان کا دکھ

زندگی وہ زندگی کا ہی تو مارا ہے میاں

روشنی ہے یا نہیں ہے وہ ستارا ہے میاں
زندگی؟ وہ زندگی کا ہی تو مارا ہے میاں 
عشق بازی تو نہیں کہ فیصلہ ہو جائے گا
کون جانے، کون جیتا، کون ہارا ہے میاں
سارے رنگوں میں نمایاں رنگ دیکھا ہے کبھی
وہ کسی کا بھی نہیں ہے، بس تمہارا ہے میاں

آشنائی کی ردا اس دھوپ میں تانے کون

آشنائی کی ردا اس دھوپ میں تانے کون
ایسی انجانی فضا میں ہم کو پہچانے گا کون
آبلہ پا، جسم زخمی، اشک آنکھیں، دل لہو
خاک میرے بعد صحراؤں کی یوں چھانے گا کون
جب محبت کے دیوں سے روشنی اڑ جائے گی
چاند تارے توڑ کر لانے کی پھر ٹھانے گا کون

نقش تعبیر کے کانٹوں میں ابھارے گئے ہیں

نقش تعبیر کے کانٹوں میں ابھارے گئے ہیں
خواب آنکھوں میں مِری یوں بھی سنوارے گئے ہیں
پہلے رسموں کی رسن سانسوں میں باندھی گئی ہے
زندگی کے لیے پھر ہم ہی پکارے گئے ہیں
پانی پینا بھی نہیں، پیاس بجھانی بھی نہیں
جانے کیوں لوگ وہ دریا کے کنارے گئے ہیں

خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر

خودی کو آ گئی ہنسی امید کے سوال پر
اندھیرے تلملا اٹھے چراغ کی مجال پر
یہ چاہتوں کا درد ہے یہ قربتوں کا حشر ہے
جو دھوپ چھپ کے روئی آفتاب کے زوال پر
یہ جان کر کہ چاند میرے گھر میں جگمگائے گا
ستارے آج شام سے ہی آگئے کمال پر

وصل کی بات اور ہی کچھ تھی

وصل کی بات اور ہی کچھ تھی
ان دنوں رات اور ہی کچھ تھی
پہلی پہلی نظر کے افسانے
وہ ملاقات اور ہی کچھ تھی
آپ آئے تھے زندگی میں میری
رات کی رات اور ہی کچھ تھی

جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں

جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں
پھر کہاں ڈھونڈنے جائیں گے تمہیں
تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو
لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں
حسرتو! دیکھو یہ ویرانۂ دل
اِس نئے گھر میں بسائیں گے تمہیں

دل حبیب دکھانے کا حوصلہ نہ ہوا

دلِ حبیب دُکھانے کا حوصلہ نہ ہوا
یہ حال تھا کہ سنانے کا حوصلہ نہ ہوا
مجھے کچھ اسکی بلندی سے خوف آتا تھا
تِری نظر میں سمانے کا حوصلہ نہ ہوا
تمہارے بعد خدا جانے کیا ہوا دل کو
کسی سے ربط بڑھانے کا حوصلہ نہ ہوا

چاندنی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے

چاندنی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
لب پہ اک بات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
جھوم کر آج یہ شبرنگ لٹیں بکھرا دے
دیکھ برسات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
دلِ مجروح کی اجڑی ہوئی خاموشی سے
بُوئے نغمات بڑی دیر کے بعد آئی ہے

Sunday 12 January 2020

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے

جلوہ نمائی بے پروائی ہاں یہی ریت جہاں کی ہے 
کب کوئی لڑکی من کا دریچہ کھول کے باہر جھانکی ہے 
آج مگر اک نار کو دیکھا، جانے یہ نار کہاں کی ہے 
مصر کی مورت، چین کی گڑیا، دیوی ہندوستان کی ہے 
مکھ پر روپ سے دھوپ کا عالم بال اندھیری شب کی مثال 
آنکھ نشیلی، بات رسیلی، چال بلا کی بانکی ہے 

سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو
انشا صاحب! ناحق جی کو وحشت میں الجھاتے ہو
دل کی بات چھپانی مشکل، لیکن خوب چھپاتے ہو
بن میں دانا، شہر کے اندر دیوانے کہلاتے ہو
بے کل بے کل رہتے ہو، پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے ہو، بھولے بھی بن جاتے ہو

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو، ہاں اے لوگو، خاموش رہو
سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اک پیالہ بھی
پاگل ہو؟ ناحق کو سقراط بنو،۔ خاموش رہو
حق اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مَرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو

تو کہے جائے گا کب تک کہ ہوا کچھ بھی نہیں

یہ خلش کہاں سے ہوتی

تُو کہے جائے گا کب تک کہ ہوا کچھ بھی نہیں
اے دل! اس درد کی سنتے ہیں دوا کچھ بھی نہیں
کس لیے چین سے محروم ہیں اپنے شب و روز
کچھ سمجھ نہیں آتا، بخدا کچھ بھی نہیں
مہرباں بھی ہیں محبت بھی ہے ان کو ہم سے
لوگ کہتے ہیں، مگر ہم کو پتا کچھ بھی نہیں

Saturday 11 January 2020

یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا

فلمی گیت

یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا
میرا غم کب تلک میرا دل توڑے گا
یہ لال رنگ کب مجھے ۔۔۔

کسی کا بھی لیا نام تو
آئی یاد، تُو ہی تُو

ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا

فلمی گیت

ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تو جو چاہے تو دن نکلتا ہے
تو جو چاہے تو رات ہوتی ہے

تجھ کو دیکھا ہے میری نظروں نے
تیری تعریف ہو مگر کیسے

چاند آہیں بھرے گا پھول دل تھام لیں گے

فلمی گیت

چاند آہیں بھرے گا، پھول دل تھام لیں گے
حسن کی بات چلی تو سب تیرا نام لیں گے
چاند آہیں بھرے گا

ایسا چہرہ ہے تیرا، جیسے روشن سویرا
جس جگہ تُو نہیں ہے، اس جگہ ہے اندھیرا
کیسے پھر چین تجھ بِن، تیرے بدنام لیں گے

قامت کو تیرے سرو صنوبر نہیں کہا

قامت کو تیرے سرو صنوبر نہیں کہا
جیسا بھی تُو تھا اس سے تو بڑھ کر نہیں کہا
اس سے ملے تو زعمِ تکلم کے باوجود
جو سوچ کر گئے، وہی اکثر نہیں کہا
اتنی مروتیں تو کہاں دشمنوں میں تھیں
یاروں نے جو کہا مِرے منہ پر نہیں کہا

تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے

تُو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں، انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی، ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے، پھر بھی یار اپنا ہے

اک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسو والی

اک ذرا سن تو مہکتے ہوئے گیسو والی
راہ میں کون دُکاں پڑتی ہے خوشبو والی
پھر یہ کیوں ہے کہ مجھے دیکھ کے رم خوردہ ہے
تیری آنکھوں میں تو وحشت نہیں آہو والی
دیکھنے میں تو ہیں سادہ سے خدوخال مگر
لوگ کہتے ہیں کوئی بات ہے جادو والی

کل ہم نے بزم یار میں کیا کیا شراب پی

کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب، نہ تنہا شراب پی
تُو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تُو ہم سبُو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی

وقت نے کیا کیا حسیں ستم

فلمی  گیت

وقت نے کِیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم، ہم رہے ہم

بے قرار دل اس طرح ملے
جس طرح ہم کبھی جدا نہ تھے
تم بھی کھو گئے ہم بھی کھو گئے

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے

خار و خس تو اٹھیں راستہ تو چلے
میں اگر تھک گیا، قافلہ تو چلے
چاند سورج بزرگوں کے نقشِ قدم
خیر بجھنے دو ان کو، ہوا تو چلے
حاکم شہر! یہ بھی کوئی شہر ہے
مسجدیں بند ہیں، مے کدہ تو چلے

بت شکن کوئی کہیں سے بھی نہ آنے پائے

سومنات

بت شکن کوئی کہیں سے بھی نہ آنے پائے
ہم نے کچھ بت ابھی سینے میں سجا رکھے ہیں
اپنی یادوں میں بسا رکھے ہیں

دل پہ یہ سوچ کے پتھراؤ کرو دیوانو
کہ جہاں ہم نے صنم اپنے چھپا رکھے ہیں
وہیں غزنی کے خدا رکھے ہیں

Friday 10 January 2020

جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں

جو آستاں سے تیرے لو لگائے بیٹھے ہیں
خدا گواہ وہ دنیا پہ چھائے بیٹھے ہیں
چمک رہی ہیں جبینیں تیرے فقیروں کی
تجلیات کے سہرے سجائے بیٹھے ہیں
خدا کے واسطے اب کھول ان پہ بابِ عطا
جو دیر سے تیری چوکھٹ پہ آئے بیٹھے ہیں

رہنے لگی وہ زلف گرہ گیر سامنے

رہنے لگی وہ زلفِ گرہ گیر سامنے
ہر وقت اب تو ہے یہی زنجیر سامنے
آتے ہیں خیر سے وہ نظر اب کبھی کبھی
آنے لگی ہے خواب کی تعبیر سامنے
ہو جائے گا محاسبہ دشمن کا خود بخود
آ جائیں گے فریب کے سب تیر سامنے

ستم پر شرط خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی​

ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی​
کہ اک تلوار🗡اپنے اور میرے درمیاں رکھ دی​
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی​
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی​
پتا چلتا نہیں، اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں ​
خدا جانے کسی نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی​

دن ڈھلا شام ہوئی چاند ستارے نکلے

دن ڈھلا، شام ہوئی، چاند ستارے نکلے
تم نے وعدہ تو کیا، گھر سے نہ پیارے نکلے
دوست جتنے تھے، وہ دشمن مِرے سارے نکلے
دم بھرا میرا، طرفدار تمہارے نکلے
اور پھر اور ہیں، اوروں کا گِلہ کیا کرنا
ہم نے پرکھا جو تمہیں، تم نہ ہمارے نکلے

اپنا قاتل پڑا تڑپتا ہے

دل ہے بسمل، پڑا تڑپتا ہے
اپنا قاتل، پڑا تڑپتا ہے
اک مقابل طلب، سرِ میداں
بے مقابل، پڑا تڑپتا ہے
راہِ منزل میں تھا جو رقص کناں
سرِ منزل، پڑا تڑپتا ہے

میری پہچان اس گلی میں ہے

دید حیران اس گلی میں ہے
کیا عجب شان اس گلی میں ہے
بات میں جان سے گزر جانا
کتنا آسان اس گلی میں ہے
اور اک بار مجھ کو جانے دو
سارا سامان اس گلی میں ہے

ہے مری ذات اک زیاں کی دکاں

بے معنی

ہے مِری ذات اک زیاں کی دکاں
مجھ کو اپنا حساب کیا معلوم
جب مجھے بھی نہیں کوئی احساس
تم کو میرا عذاب کیا معلوم
ہر کسی سے بچھڑ گیا ہوں میں
کون دل میں میرا ملال رکھے

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا
مجھے یاں کسی پہ بھروسا نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
سو میں اپنے ہونٹوں پہ اکثر چھپا

عطائے درد کی ترسیل نامکمل ہے

عطائے درد کی ترسیل نامکمل ہے
ہماری ذات کی تشکیل نامکمل ہے
ہمارے روگ میں ہے بند کاروبارِ جہاں
ہمارے شہر میں تعطیل نامکمل ہے
مٹا نہیں ہے اندھیرا غموں کا دنیا سے
نشاطِ روح کی قندیل نامکمل ہے

Thursday 9 January 2020

گریہ مسرت

گریۂ مسرت

نازنین و عفیف اک بیوی
یادِ شوہر میں سست بیٹھی تھی
غمزدہ، مضمحل پریشاں حال
شکل غمگین، پُرشکن خط و خال
سوزِ ہجراں کی آنچ سینے میں
پھر وہ برسات کے مہینے میں

یقین ڈوب گیا تو گماں سے کیا ہو گا

یقین ڈوب گیا تو گماں سے کیا ہو گا
زمیں سے جو نہ ہوا، آسماں سے کیا ہو گا
مزا تو جب ہے کہ نظمِ چمن پہ چھا جاؤ
شکایتِ روشِ باغباں سے کیا ہو گا
بہار، خونِ جگر سے اُگے تو بات بنے
نوائے شکوۂ جورِ خزاں سے کیا ہو گا

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی 
ہر طرف دیکھ لیا جب تِری صورت دیکھی 
آئے اور اک نگۂ خاص سے پھر دیکھ گئے 
جبکہ آتے ہوئے بیمار میں طاقت دیکھی 
قوتیں ضبط کی ہر چند سنبھالے تھیں مجھے 
پھر بھی ڈرتے ہوئے میں نے تِری صورت دیکھی 

ایسے نہ تھے ہم اہل دل اتنے کہاں خراب تھے

ایسے نہ تھے ہم اہلِ دل، اتنے کہاں خراب تھے
ہم بھی کسی کی آس تھے، ہم بھی کسی کا خواب تھے
اب جو ہوئے ہیں خیر سے، راندۂ خلقِ شہر ہم
چہرۂ شب کا نور تھے، شیشۂ فن کی آب تھے
دل پہ کسی کے نقش تھے صورتِ حرفِ آرزو
اس کی کتابِ زیست میں لائقِ انتساب تھے

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا

زخموں کا دوشالہ پہنا دھوپ کو سر پر تان لیا
کیا کیا ہم نے کشٹ کمائے کہاں کہاں نروان لیا
نقش دیئے تِری آشاؤں کو عکس دیئے تِرے سپنوں کو
لیکن دیکھ ہماری حالت وقت نے کیا تاوان لیا
اشکوں میں ہم گوندھ چکے تھے اس کے لمس کی خوشبو کو
موم کے پھول بنانے بیٹھے لیکن دھوپ نے آن لیا

کیے رسمی رسمی مکالمے مجھے دل سے پیار نہیں کیا

کیے رسمی رسمی مکالمے مجھے دل سے پیار نہیں کیا
مجھے اعتبار تو کہہ دیا، مِرا اعتبار نہیں کیا
مِری فردِ جرم سے آشنا سبھی جانتے ھیں یہ ماجرا
کہ سوائے صبر کے راستہ کوئی اختیار نہیں کیا
مِرے رفتگان نے یہ کہہ دیا کہ ملیں گے اگلے پڑاؤ پر
بڑی عجلتوں میں تھے ہمسفر، مِرا انتظار نہیں کیا

اس زخم جاں کے نام جو اب تک نہیں‌ بھرا

انتساب

اس زخمِ جاں کے نام، جو اب تک نہیں‌ بھرا
اس زندہ دل کے نام، جو اب تک نہیں مرا
اس زندگی کے نام، گزارا نہیں جسے
اس قرضِ فن کے نام، اتارا نہیں جسے
اہلِ نظر کے نام، جو جوہر شناس ہیں
اہلِ وفا کے نام، جو فن کی اساس ہیں

Wednesday 8 January 2020

اندھیری شب میں اسی کے اشاروں جیسے ہیں

اندھیری شب میں اسی کے اشاروں جیسے ہیں
وہ اس کے نین چمکتے ستاروں جیسے ہیں
بچھڑ کے ہم سے بظاہر وہ مطمئن ہے بہت
پیام اس کے مگر بے قراروں جیسے ہیں
چلو کہ پار لگیں ڈوب کر محبت میں
کہ اس ندی کے بھنور بھی کناروں جیسے ہیں

اے دوست تری آنکھ جو نم ہے تو مجھے کیا

اے دوست تِری آنکھ جو نم ہے تو مجھے کیا
میں خوب ہنسوں گا تجھے غم ہے تو مجھے کیا
کیا میں نے کہا تھا کہ زمانے سے بھلا کر
اب تُو بھی سزاوارِ ستم ہے تو مجھے کیا
ہاں لے لے قسم گر مجھے قطرہ بھی ملا ہو
تو شاکیٔ اربابِ کرم ہے تو مجھے کیا

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر

شرمندہ انہیں اور بھی اے میرے خدا کر
دستار جنہیں دی ہے انہیں سر بھی عطا کر
لُوٹا ہے سدا جس نے ہمیں دوست بنا کر
ہم خوش ہیں اسی شخص سے پھر ہاتھ ملا کر
ڈر ہے کہ نہ لے جائے وہ ہم کو بھی چرا کر
ہم لائے ہیں گھر میں جسے مہمان بنا کر

کسی پپیہے نے کوئی برہا کا گیت گایا تو کیا کرو گے

کسی پپیہے نے کوئی بِرہا کا گیت گایا تو کیا کرو گے
ابھی تو پھاگن کا ہے مہینہ، جو ساون آیا تو کیا کرو گے
ہنسیں گی کلیاں، کھلیں گے غنچے، بچھے گی پھولوں کی سیج لیکن
کیا تھا آنے کا جس نے وعدہ، وہی نہ آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو ہے دوپہر کا عالم، ابھی تو چھایا نہیں اندھیرا
جدا تمہارے بدن سے ہو گا تمہارا سایہ تو کیا کرو گے

جو ہم نے دیکھ رکھے ہیں وہ خواب رہنے دے

جو ہم نے دیکھ رکھے ہیں وہ خواب رہنے دے
ہماری آنکھ کے آگے سراب رہنے دے
آ ہوش اپنے ٹھکانے پہ رکھ کے ہم کو دکھا
لے شعر سن تُو ہمارے، شراب رہنے دے
سمیٹ لے وہ منافع جو تیرا بنتا ہے
ادھر دھکیل خسارے، حساب رہنے دے

کون آئے گا

کون آئے گا

شب بھر گرتے پتوں کی آوازیں مجھ سے کہتی ہیں
کون آئے گا
کس کی آہٹ پر مٹی کے کان لگے ہیں
خوشبو کس کو ڈھونڈ رہی ہے
شبنم کا آشوب سمجھ

جاڑے کی کہر بھری شام

جاڑے کی کہر بھری شام

کبھی کبھی
جاڑے کی کہر بھری شام میں
جانے کیوں
یونہی اداس ہونے کو جی چاہتا ہے
کسی بچھڑے ہوئے کی یاد میں

چلو کچھ آج حساب زیان جاں کر لیں

نئے سال کی پہلی نظم

چلو کچھ آج حسابِ زیانِ جاں کر لیں
الم شمار کریں، درد آشکار کریں
گِلے جو دل کی تہوں میں ہیں آبلوں کی طرح
انہیں بھی آج شناسائے نوکِ خار کریں
جو بے وفا ہو اسے بے وفا کہیں کُھل کر
حدیثِ چشم و لب سوختہ کہیں کُھل کر

بارش اور ہم

بارش اور ہم

بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام​
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام​
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیں​
ان راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں​
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کر​
کاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر​

Tuesday 7 January 2020

روز جانا پڑتا ہے کتنی لاشیں دفنانے

اتنے مختلف کیوں ہیں فیصلوں کے پیمانے
ہم کریں تو دہشت گرد، تم کرو تو دیوانے
تم تو خون کی ہولی کھیل کر بھی ہو معصوم
قتل بھی کیے تم نے، جرم بھی نہیں مانے
اس لیے بنایا ہے گھر کے پاس قبرستان
روز جانا پڑتا ہے کتنی لاشیں دفنانے

یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا

نہیں مطلب نہیں اس کی نہیں کا
یہ دل سمجھا نہیں پاگل کہیں کا
ستارے ماند ہیں سب تیرے ہوتے
کہ تُو ہے چاند، وہ بھی چودھویں کا
میں روتا ہوں تو روتے ہیں دروبام
مکاں بھی دکھ سمجھتا ہے مکیں کا

خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں

خاک اڑتی ہے رات بھر مجھ میں 
کون پھرتا ہے در بدر مجھ میں 
مجھ کو خود میں جگہ نہیں ملتی 
تُو ہے موجود اس قدر مجھ میں 
موسمِ گِریہ ایک گزارش ہے 
غم کے پکنے تلک ٹھہر مجھ میں 

مار دے گا دل شوقین مجھے

ہجر میں ہے یہی تسکین مجھے
شعر مل جائیں گے دو تین مجھے
اس نے مانگی تھی جدائی کی دعا
اور کہنا پڑا "آمین" مجھے
اک کھلونا تھا کہ ٹوٹا تھا کبھی
آج بھی یاد ہے" تدفین" مجھے

تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے

تیز جب گردش حالات ہوا کرتی ہے 
روشنی دن کی سِیہ رات ہوا کرتی ہے 
رنج اور غم کی جو برسات ہوا کرتی ہے 
دولتِ عشق کی خیرات ہوا کرتی ہے 
جب خیالوں میں دبے پاؤں وہ آ جاتا ہے 
وہ ملاقات "ملاقات" ہوا کرتی ہے 

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں انساں نہیں ہوں میں

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں انساں نہیں ہوں میں
ان کو خبر نہیں یہ کہ بے جاں نہیں ہوں
خوشبو ہوں، تازگی ہوں، گھٹا ہوں، بہار ہوں
بادِ صبا کا لمس ہوں، طوفاں نہیں ہوں میں
میرے بدن کو تکتی نگاہو! ذرا سنو
چادر حیا کی اوڑھے ہوں عُریاں نہیں ہوں میں

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے

جذب آنکھوں میں اگر خواب نہیں ہونے کے
معتبر عشق کے آداب نہیں ہونے کے
ہم نے پلکوں میں چھپا رکھے ہیں اپنے آنسو
رائیگاں گوہرِ نایاب نہیں ہونے کے
بے حسی لے گئی جذبات کی ساری خوشبو
اب یہ غنچے کبھی شاداب نہیں ہونے کے

وہ ہے اپنا یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم

وہ ہے اپنا، یہ جتانا بھی نہیں چاہتے ہم
دل کو اب اور دُکھانا بھی نہیں چاہت ہم
آرزو ہے کہ وہ ہر بات کو خود ہی سمجھے
دل میں کیا کیا ہے دِکھانا بھی نہیں چاہتے ہم
ایک پردے نے بنا رکھا ہے دونوں کا بھرم
اور وہ پردہ ہٹانا بھی نہیں چاہتے ہم

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ

کچھ اس طرح سے کسی نے کہا خدا حافظ
کہ جیسے بول رہا ہو خدا، خدا حافظ
میں ایک بار پریشاں ہوا تھا اپنے لیے
جب اس نے روتے ہوئے بولا تھا خدا حافظ
تُو جس کے پاس بھی جا، جا، تجھے اجازت ہے
تجھے خدا کے حوالے کیا، خدا حافظ

مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے

مرشد پہلا حصہ

مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجئے
مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا
مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا
مرشد ہمارے دیس میں اک جنگ چھڑ گئی
مرشد سبھی شریف شرافت سے مر گئے
مرشد ہمارے ذہن گرفتار ہو گئے

مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا

مرشد دوسرا حصہ

مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا
اور آپ ہیں کہ آپ کو احساس تک نہیں
ہہہ ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شئے وی نئیں بچی
مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی
اور پارسا نماز کے پیچھے پڑے رہے

مرشد دعائیں چھوڑ ترا پول کھل گیا

مرشد تیسرا حصہ

مرشد دعائیں چھوڑ، ترا پول کھل گیا
تو بھی مری طرح ہے، ترے بس میں کچھ نہیں
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
اے ربِ کائنات ادھر دیکھ، میں فقیر
جو تیری سرپرستی میں برباد ہو گیا

Monday 6 January 2020

ہمارے دل میں تمہارا قیام تھوڑی ہے

ہمارے دل میں تمہارا قیام تھوڑی ہے
یہ حوصلہ ہے میاں، انتقام تھوڑی ہے 
حلق میں آنے لگا ہے خوشی کے نام کا دکھ
مگر خوشی کا بھلا یہ مقام تھوڑی ہے
اس کا لہجہ بتا رہا ہے اذیت اس کی
وگرنہ اس کا یہ طرزِ کلام تھوڑی ہے

کان ہوتا ہے ادب میں زبان سے پہلے

عجب نہیں کہ پرندہ اڑان سے پہلے
قفس کو چوم کے آتا ہے مان سے پہلے
مر تو جانا ہے بچھڑ کے، مگر اچھی لڑکی
دیکھ تو لوں میں تجھے اطمینان سے پہلے
زمیں پہ لوٹ کے جانا ہے اگر ایسے میں
نمٹ نہ لوں میں ذرا آسمان سے پہلے 

ہوس کو تیری محبت میں ضم نہیں کریں گے

بچھڑتے وقت بھی آنکھوں کو نم نہیں کریں گے
وہ چاہ کر بھی ہمیں محترم نہیں کریں گے
تُو دستیاب بھی ہو گا تو دیکھ لینا ہم
ہوس کو تیری محبت میں ضم نہیں کریں گے
گلے لگائیں گے ماتھے پہ پیار بھی دیں گے
ہم اس پری کے بدن پر ستم نہیں کریں گے

جو عبادت گزار نکلے گا

جو عبادت گزار نکلے گا 
وہ ہوس کا شکار نکلے گا 
اس کی آنکھوں کا رنگ نیلا ہے
وہ بھی کم اعتبار نکلے گا
آستینوں کو جھاڑ کر دیکھو
ایک آدھا تو 'یار' نکلے گا

اس ستم گر کی مہربانی سے

 اس ستم گر کی مہربانی سے

دل الجھتا ہے زندگانی سے

خاک سے کتنی صورتیں ابھریں

دُھل گئے نقش کتنے پانی سے

ہم سے پوچھو تو ظلم بہتر ہے

ان حسینوں کی مہربانی سے

عمر جو بے خودی میں گزری ہے

 عمر جو بیخودی میں گزری ہے

بس وہی آگہی میں گزری ہے

کوئی موجِ نسیم سے پوچھے

کیسی آوارگی میں گزری ہے

ان کی بھی رہ سکی نہ دارائی

جن کی سکندری میں گزری ہے

اک نقل تجھے بھی بھیجوں گا

اک نقل تجھے بھی بھیجوں گا
یہ سوچ کے ہی
تنہائی کے نیچے کاربن پیپر رکھ کے میں
اونچی اونچی آواز میں باتیں کرتا ہوں
الفاظ اتر آتے ہیں کاغذ پر، لیکن
آواز کی شکل اترتی نہیں

درد کچھ دیر ہی رہتا ہے، بہت دیر نہیں

درد

درد کچھ دیر ہی رہتا ہے، بہت دیر نہیں
جس طرح شاخ سے توڑے ہوئے اک پتے کا رنگ
ماند پڑ جاتا ہے کچھ روز الگ شاخ سے رہ کر
شاخ سے ٹوٹ کے یہ درد جیے گا کب تک؟
ختم ہو جائے گی جب اس کی رسد
ٹمٹمائے گا ذرا دیر کو بجھتے بجھتے

آدمی بلبلہ ہے پانی کا

آدمی بلبلہ ہے پانی کا
اور پانی کی بہتی سطح پر
ٹوٹتا بھی ہے ڈوبتا بھی ہے
پھر ابھرتا ہے، پھر سے بہتا ہے
نہ سمندر نگل سکا اس کو
نہ تواریخ توڑ پائی ہے

تم گئے تو اور کچھ نہیں ہوا

تم گئے تو اور کچھ نہیں ہوا 
دل پہ اعتماد گھٹ گیا میرا
میں جو دل کے پیچھے، اس کے نقشِ پا پہ
پاؤں رکھ کے چلتا تھا
چلتے چلتے دیکھا تو نشان ختم ہو گئے
تم گئے تو اور کچھ نہیں ہوا 
دل سے اعتبار اٹھ گیا میرا

گلزار 

Sunday 5 January 2020

شجر پر ہی پرندے بیٹھتے ہیں

بڑی مشکل سے نیچے بیٹھتے ہیں
جو تیرے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں
اکیلے بیٹھنا ہو گا کسی کو
اگر ہم تم اکٹھے بیٹھتے ہیں
اور اب اٹھنا پڑا ناں اگلی صف سے
کہا بھی تھا کہ پیچھے بیٹھتے ہیں

کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا

کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا
کچھ دن میں سامنے رہا کچھ دن نہیں رہا
پہلے یہ ربط میری ضرورت بناؤ گے
اور پھر کہو گے رابطہ ممکن نہیں رہا
ہم ایک واردات سے تھوڑے ہی دور ہیں
وہ ہاتھ لگ گیا ہے، مگر چِھن نہیں رہا

دوا سے حل نہ ہوا تو دعا پہ چھوڑ دیا

دوا سے حل نہ ہوا تو دعا پہ چھوڑ دیا
ترا معاملہ ہم نے خدا پہ چھوڑ دیا
بہت خیال رکھا میرا اور درختوں کا
پھر اس نے دونوں کو آب و ہوا پہ چھوڑ دیا
میں چاہتا تھا وہی ایک دونوں جانب ہو
سو میں نے آئینہ اپنی جگہ پہ چھوڑ دیا

تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں

سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ہیں
پھر تو سارے ماہ و سال اسی کے ساتھ گزرنے ہیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا، جب یہ قرض اتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا
٭
آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے

لطف فرما سکو تو آ جاؤ

لطف فرما سکو تو آ جاؤ
آج بھی آ سکو تو آ جاؤ
اپنی وسعت میں کھو چکا ہوں میں
راہ دِکھلا سکو تو آ جاؤ
اب وہ دل ہی نہیں وہ غم ہی نہیں
آرزو لا سکو تو آ جاؤ

بادہ نیم رس

بادۂ نِیم رس

کس قیامت کا تبسم ہے تِرے ہونٹوں پر
استعاروں میں بھٹکتے ہیں خیالات مِرے
میں کہ ہر سانس کو اک شعر بنا سکتا ہوں
نظم ہونے کو پریشان ہیں جذبات مِرے
٭
آنکھ جمتی نہیں لہراتے ہوئے قدموں پر
کسی نغمے کا تلاطم ہے کہ رفتار تِری

وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا

وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا

فلمی گیت

وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا
امید گئی ارمان گئے
اے دنیا ہم سے چال نہ کر
ہم خوب تمہیں پہچان گئے
وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا

Friday 3 January 2020

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن

گزرے جو اپنے یاروں کی صحبت میں چار دن
ایسا لگا بسر ہوئے جنت میں چار دن
عمرِ خضرؑ کی اس کو تمنا کبھی نہ ہو
انسان جی سکے جو محبت میں چار دن
جب تک جیۓ نبھائیں گے ہم ان سے دوستی
اپنے رہے جو دوست مصیبت میں چار دن

چاندنی رات میں اندھیرا تھا

چاندنی رات میں اندھیرا تھا
اس طرح بے بسی نے گھیرا تھا
میرے گھر میں بسی تھی تاریکی
گھر سے باہر مگر سویرا تھا
وہ کسی اور کا ہوا ہے آج
وہ جو کل تک تو صرف میرا تھا

اتنا احسان تو ہم پر وہ خدارا کرتے

اتنا احسان تو ہم پر وہ خدا را کرتے
اپنے ہاتھوں سے جگر چاک ہمارا کرتے
ہم کو تو دردِ جدائی سے ہی مر جانا تھا
چند روز اور نہ قاتل کو اشارہ کرتے
لے کے جاتے نہ اگر ساتھ وہ یادیں اپنی
یاد کرتے انہیں، اور وقت گزارا کرتے

موت بھی میری دسترس میں نہیں

موت بھی میری دسترس میں نہیں
اور جینا بھی اپنے بس میں نہیں
آگ بھڑکے تو کس طرح بھڑکے
اک شرر بھی تو خار و خس میں نہیں
قتل و غارت کھلی فضا کا نصیب
ایسا خطرہ کوئی قفس میں نہیں

جب کبھی ذکر یار کا آیا

جب کبھی ذکر یار کا آیا
ایک جھونکا بہار کا آیا
عشق کچے گھڑے پہ ڈوب گیا
لمحہ جب انتظار کا آیا
آ گئے دل میں وسوسے کتنے
وقت جب اعتبار کا آیا

Thursday 2 January 2020

اے مرے نور نظر لخت جگر جان سکوں

لوری

اے مِرے نورِ نظر لختِ جگر جان سکوں
نیند آنا تجھے دشوار نہیں ہے سو جا
ایسے بد بخت زمانے میں ہزاروں ہوں گے
جن کو لوری بھی میسر نہیں آتی ہو گی
میری لوری سے تِری بھوک نہیں مٹ سکتی
میں نے مانا کہ تجھے بھوک ستاتی ہو گی

اداسی کا سمندر دیکھ لینا

اداسی کا سمندر دیکھ لینا
مِری آنکھوں میں آ کر دیکھ لینا
ہمارے ہجر کی تمہید کیا تھی
مِری یادوں کا دفتر دیکھ لینا
تصور کے لبوں سے چوم لوں گا
تِری یادوں کے پتھر دیکھ لینا

حبس بہت ہے

حبس بہت ہے

اشکوں سے یوں آنچل گیلے کر کے ہم
دل پر کب تک ہوا کریں
باغ کے در پر قُفل پڑا ہے
اور خوشبو کے ہاتھ بندھے ہیں
کسے صدا دیں

ایک دفنائی ہوئی آواز

ایک دفنائی ہوئی آواز

پھولوں اور کتابوں سے آراستہ گھر ہے
تن کی ہر آسائش دینے والا ساتھی
آنکھوں کو ٹھنڈک پہچانے والا بچہ
لیکن اس آسائش اس ٹھنڈک کے رنگ محل میں
جہاں کہیں جاتی ہوں

خدا کرے نیا سال تیرے دامن میں

دعا

خدا کرے نیا سال تیرے
دامن میں
وہ سارے پھول کھلا دے
کہ جن کی خوشبو نے
تیرے خیال میں شمعیں
جلا رکھی تھیں

پروین شاکر

مشورہ

مشورہ

ہماری محبت کی کلینیکل موت واقع ہو چکی ہے
معذرتوں اور عذر خواہیوں کا مصنوعی تنفس 
اسے کب تک زندہ رکھے گا 
بہتر  یہی ہے
کہ ہم منافقت کا پلگ نکال دیں 
اور ایک خوبصورت جذبے کو باوقار موت مرنے دیں

پروین شاکر

Wednesday 1 January 2020

اٹھو وطن کے باسیو

اٹھو وطن کے باسیو

اٹھو کہ وقت آ گیا
اٹھو کہ زندگی پہ اب عذاب سخت آ گیا
اٹھو کہ وقت آ گیا
یہ حکمراں، یہ بازی گر
کریں گے ہم کو دربدر

وقت کو گزرنا ہے

وقت کو گزرنا ہے

موت کی حقیقت اور
زندگی کے سپنے کی
بحث گو پرانی ہے
پھر بھی اک کہانی ہے
اور کہانیاں بھی تو

چل جوگی اب دیس بدل

کوئی انوکھا بھیس بدل
چل جوگی اب دیس بدل
ہجرت بھی بے فائدہ ٹھہری
اب یہ بھی پردیس بدل
نئے سرے سے زخم لگا
پہلے والی ٹھیس بدل

جو چاہتا تھا اسے میں نے وہ ملال دیا

 جو چاہتا تھا اسے میں نے وہ ملال دیا

بٹھا کے دِل میں اسے دِل سے پھر نکال دیا

کہاں رہا ہوں میں محرومِ لذتِ آزاد

کسی نے ہجر، کسی نے مجھے وصال دیا

مجھے یقین نہیں تھا نکل سکے گا کبھی

یہ میں نے کعبۂ دِل سے وہ بت نکال دیا

بس سٹینڈ پر

بس سٹینڈ پر

خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی
خدا سے کیا گلہ بھائی
خدا تو خیر کس نے اس کا عکسِ نقش پا دیکھا
نہ دیکھا بھی تو کیا دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا
مگر توبہ میری توبہ، یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے