لوگ جب زعم کے جنجال میں آ جاتے ہیں
اوجِ افلاک سے پاتال میں آ جاتے ہیں
تُو بھی اے زندگی! کیا یاد کرے گی ہم کو
آج خود چل کے تِرے جال میں آ جاتے ہیں
زیرِ انگشت کسی حرف کا آنا، جیسے
تُو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
اے اجل! اپنے اصولوں کے فسانے نہ سنا
“جن کو آنا ہو وہ ہر حال میں آ جاتے ہیں”
جتنے غم پالے ہیں اے دامنِ دنیا! تُو نے
اتنے غم تو میرے رومال میں آ جاتے ہیں
ایسے نا کردہ گناہوں کا برا ہو افؔضل
جو مِرے نامۂ اعمال میں آ جاتے ہیں
افضل خان
No comments:
Post a Comment