اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا
اے سنگدل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا
ڈوبا کچھ اس طرح سے مِرا آفتابِ دل
سب کچھ ہوا یہ پھر نہ سحر آشنا ہوا
یوں اسکے در پہ بیٹھے ہیں جیسے یہیں کے ہوں
گھر سے چلو تو باندھ کے سر سے کفن چلو
شہرِ وفا سے دشتِ فنا ہے ملا ہوا
دل دے کے خوش ہوں میں کہ حفاظت کا غم گیا
تجھ سے قریب ہے وہ جو مجھ سے جدا ہوا
لب سے لگا تو بھول گئے ہم غمِ حیات
ساغر میں کوئی تجھ سا حسیں ہے چھپا ہوا
پی ہم نے خوب عؔرش کشیدِ نگاہ و دل
کس مۓ کدے کا در تھا جو ہم پر نہ وا ہوا
عرش صدیقی
No comments:
Post a Comment