روز کی مسافت سے چور ہو گئے دریا
پتھروں کے سینوں پر تھک گئے، سو گئے دریا
جانے کون کاٹے کا فصل لعل و گوہر کی
ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا
اے سحابِ غم کب تک یہ گریز آنکھوں سے
چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈنے خوشبو
ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا
دل چٹان کی صورت سیلِ غم پہ ہنستا ہے
جب نہ بن پڑا کچھ بھی داغ دھو گئے دریا
زخمِ نامرادی سے ہم فؔراز زندہ ہیں
دیکھنا سمندر میں غرق ہو گئے دریا
احمد فراز
No comments:
Post a Comment