Thursday, 23 January 2020

تو اگر سید ہے تو ایڑھی رگڑ چشمہ نکال

بات ایسی جو قیامت تک رہے زندہ، نکال
شعر خود بن جائے گا تُو صرف اک مصرع نکال
تُو اگر سید ہے تو پھر در بدر جاتا ہے کیوں؟
تُو اگر سید ہے تو ایڑھی رگڑ، چشمہ نکال
کیا عداوت ہے پرندوں سے، گرائے کیوں شجر؟
اب بدن پر اوڑھ سورج، دھوپ سے سایہ نکال
تنگ ہے گر ہاتھ تو آ بات سن، اک کام کر
آنکھ سے کچھ خواب اٹھا کر بیچ دے، خرچہ نکال
قصہ گو! تیرا یہ قصہ تو مجھے اچھا لگا
ہاں مگر وہ خون میں لتھڑا ہوا لاشہ نکال
خواب کب مجبوریوں کا دُکھ سمجھتے ہیں بھئی
جس طرح ممکن ہو بس تعبیر کا رستہ نکال
دیکھتے ہیں کتنے پانی میں تھے دونوں کے بزرگ
آج ساحر وقت کا اور عشق کا شجرہ نکال

سبطین ساحر

No comments:

Post a Comment