Thursday, 23 January 2020

عجیب دریا ہے اپنے پانی سے لڑ رہا ہے

پرانا قصہ نئی کہانی سے لڑ رہا ہے
نحیف بوڑھا جو زندگانی سے لڑ رہا ہے
یہ کیسی ضد ہے کہ دونوں مجھ میں ہی رہنا چاہیں
مِرا بڑھاپا مِری جوانی سے لڑ رہا ہے
وہ میرے سینے میں رہ کے بھی مجھ سے لڑ رہی ہے
عجیب دریا ہے، اپنے پانی سے لڑ رہا ہے
گلوں کی رنگت، چمن کی نکہت بچا رہا ہے
یہ زرد پتّا جو رائیگانی سے لڑ رہا ہے
یہ س ساحر کی س ساحر سے مت ہٹاؤ
یہ حرفِ نو ہے کئی معانی سے لڑ رہا ہے

سبطین ساحر

No comments:

Post a Comment