سیاہی گرتی رہے اور دیا خراب نہ ہو
یہ طاقِ چشم اب اتنا بھی کیا خراب نہ ہو؟
ازل ابد میں ٹھنی ہے، سو میں نکلتا ہوں
مِری کڑی سے تِرا سلسلہ خراب نہ ہو
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
ہم اس ہوا سے تو کہتے ہیں کیوں بجھایا چراغ؟
کہیں چراغ کی اپنی ہوا خراب نہ ہو
مِری خرابی کو یکجا کرو کہیں نہ کہیں
مِرا معاملہ اب جا بہ جا خراب نہ ہو
خراب ہوں بھلے اس اشتہا میں ہم اور تم
پر ایک دوسرے کا ذائقہ خراب نہ ہو
میں اپنی شرط پہ آیا تھا اس خرابے میں
سو میرے ساتھ کوئی دوسرا خراب نہ ہو
گزر رہے ہو اِدھر سے تو ٹھیک سے گزرو
ہمارا خطِ خرابی ذرا خراب نہ ہو
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment