دھمال دھول اڑائے تو عشق ہوتا ہے
وجود وجد میں آئے تو عشق ہوتا ہے
بہا رہا ہے وہ جلتے چراغ پانی میں
اتر کے تہہ میں جلائے تو عشق ہوتا ہے
تپش تو ہوتی ہے لیکن دھواں نہیں ہوتا
دکانِ وصل تو کھولے اداس دل میں مگر
خوشی سے ہجر کمائے تو عشق ہوتا ہے
جو خال و خد میں مقید ہو سنگ کی صورت
پگھل کے اس کو دکھائے تو عشق ہوتا ہے
قدم قدم وہ دھمک ہو زمیں دھڑک اٹھے
فلک غبار میں آئے تو عشق ہوتا ہے
عصاۓ جذب کی ضربوں سے توڑ کر دنیا
نئے سرے سے بنائے تو عشق ہوتا ہے
جو درد اٹھتا ہے رہ رہ کے سینۂ شق میں
ہو آپ اپنا اُپائے تو عشق ہوتا ہے
دبا ہوا ہو جو آپ اپنے ملبے میں
وہ خود کو خود سے ہٹائے تو عشق ہوتا ہے
نگر میں رہ کے بھی عاشق رہے گا دشت نورد
نہیں کہ خاک اڑائے تو عشق ہوتا ہے
صدا لگاۓ تو خود بھی صدا میں ڈھل جائے
فقیر ناد بجائے تو عشق ہوتا ہے
وہ عکس آنکھ میں آئے تو کچھ نہیں ہوتا
شبیہ دل میں سمائے تو عشق ہوتا ہے
غبار ہوتا ہے آئے جو ذر کے رستے سے
غنا کی راہ سے آئے تو عشق ہوتا ہے
یہ سوزِ جسم سے آگے کی آگ ہے نیر
الاؤ روح جلائے تو عشق ہوتا ہے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment