Wednesday, 29 January 2020

وجود وجد میں آئے تو عشق ہوتا ہے

دھمال دھول اڑائے تو عشق ہوتا ہے
وجود وجد میں آئے تو عشق ہوتا ہے
بہا رہا ہے وہ جلتے چراغ پانی میں
اتر کے تہہ میں جلائے تو عشق ہوتا ہے
تپش تو ہوتی ہے لیکن دھواں نہیں ہوتا
جو آگ اشک لگائیں تو عشق ہوتا ہے
دکانِ وصل تو کھولے اداس دل میں مگر
خوشی سے ہجر کمائے تو عشق ہوتا ہے
جو خال و خد میں مقید ہو سنگ کی صورت
پگھل کے اس کو دکھائے تو عشق ہوتا ہے
قدم قدم وہ دھمک ہو زمیں دھڑک اٹھے
فلک غبار میں آئے تو عشق ہوتا ہے
عصاۓ جذب کی ضربوں سے توڑ کر دنیا
نئے سرے سے بنائے تو عشق ہوتا ہے
جو درد اٹھتا ہے رہ رہ کے سینۂ شق میں
ہو آپ اپنا اُپائے تو عشق ہوتا ہے
دبا ہوا ہو جو آپ اپنے ملبے میں
وہ خود کو خود سے ہٹائے تو عشق ہوتا ہے
نگر میں رہ کے بھی عاشق رہے گا دشت نورد
نہیں کہ خاک اڑائے تو عشق ہوتا ہے
صدا لگاۓ تو خود بھی صدا میں ڈھل جائے
فقیر ناد بجائے تو عشق ہوتا ہے
وہ عکس آنکھ میں آئے تو کچھ نہیں ہوتا
شبیہ دل میں سمائے تو عشق ہوتا ہے
غبار ہوتا ہے آئے جو ذر کے رستے سے
غنا کی راہ سے آئے تو عشق ہوتا ہے
یہ سوزِ جسم سے آگے کی آگ ہے نیر
الاؤ روح جلائے تو عشق ہوتا ہے

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment