رُلوا کے مجھ کو یار گنہ گار کر نہیں
آنکھیں ہیں تر تو ہوں مِرا دامن تو تر نہیں
امیدِ وصل سے بھی تو صدمہ نہ کم ہوا
کیا درد جائے گا جو دوا کا اثر نہیں
دن کو بھی داغ دل کی نہ کم ہو گی روشنی
تنہا چلیں ہیں معرکۂ عشق جھیلنے
ان کی طرف خدائی ہے، کوئی اِدھر نہیں
خالی صفائیِ قلب سے بہتر ہے داغِ عشق
کیا عیب ہے، کہ جس کے مقابل ہنر نہیں
قاتل کی راہ دیکھ لے دم بھر، نہ زہر کھا
اے دل قضا کو آنے دے، بے موت مر نہیں
آنکھیں جھپک رہی ہیں مِری برقِ حسن سے
پیش نظر ہو تم، مجھے تابِ نظر نہیں
یارو! بتاؤ کس طرف آنکھیں بچھاؤں میں
اس شوخ کی کدھر کو ہے آمد، کدھر نہیں
پریوں کے پاس جاؤں میں کیوں دل کو بیچنے
سودا جو مول لوں یہ مجھے دردِ سر نہیں
راہِ عدم میں ساتھ رہے گی تِری ہوس
پروا نہیں، نہ ہو جو کوئی ہمسفر نہیں
خلوت سرائے یار میں پہنچے گا کیا کوئی
وہ بند و بست ہے، کہ ہوا کا گزر نہیں
اٹھوا کے اپنی بزم سے دل کو مِرے نہ توڑ
پہلو میں دے کے جا، مجھے برباد کر نہیں
زنجیر اتر گئی، تِرا دیوانہ مر گیا
سناٹا قید خانے میں ہے شور و شر نہیں
چندرا کے مجھ کو بولے وہ آخر جو شب ہوئی
فق ہو گیا ہے رنگ کسی کا سحر نہیں
برپا ہے حشر و نشر جو رفتارِ یار سے
یہ کون سا چلن ہے، قیامت اگر نہیں
در نجف تو جسم ہے اس نازنین کا
موئے نجف میں بال پڑا ہے کمر نہیں
یارو ستم ہوا ہوئی آخر شبِ وصال
سینہ شرف یہ کوٹ رہے ہیں گجر نہیں
آغا حجو شرف
No comments:
Post a Comment