وہ جو سورج خرید کرتا تھا
اپنے حصے میں رات لے آیا
ہار دیکھی، تو وہ ہنر والا
لپیٹ کر ہی بساط لے آیا
اپنے حصے میں میں نہیں آیا
عشق والے حسین واقف تھے
کہاں یہ دریا فرات لے آیا
یہ محبت اداس پھرتی تھی
تو مکمل حیات لے آیا
عشق انصر فقط اجڑنا ہے
تُو کہاں سے ثبات لے آیا؟
انصر منیر
No comments:
Post a Comment