کچھ آنے والوں کی تاخیر سے تنگ آ گئے ہیں
یہ گھر تعمیر در تعمیر سے تنگ آ گئے ہیں
کئی عالم میں شور اٹھتا ہے اس زنجیرِ پاسے
کئی عالم مِری زنجیر سے تنگ آ گئے ہیں
تو کیا اس راز سے سینہ چھڑا لیں، سانس لے لیں
انہیں فرشوں پہ تکیہ تھا، مگر یہ فرش بھی تو
ہمارے نالہَ شب گیر سے تنگ آ گئے ہیں
مچانوں میں سے آنسو گر رہے ہیں خاک اوپر
شکاری ہیں کہ جو تقدیر سے تنگ آ گئے ہیں
عجب کیا وقت کا یہ آخری پھیرا ہو یاں پر
گلی کوچے اب اس رہگیر سے تنگ آ گئے ہیں
وضاحت کرتے کرتے، زندگی پر مرتے مرتے
مسلسل ایک ہی تعزیر سے تنگ آ گئے ہیں
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment