Tuesday 21 January 2020

سورج سے اختلاف بھی کرنا پڑا مجھے

سورج سے اختلاف بھی کرنا پڑا مجھے
گھر میں نیا شگاف بھی کرنا پڑا مجھے
تاریخ پر جمی ہوئی صدیوں کی گرد تھی
اس آئینے کو صاف بھی کرنا پڑا مجھے
میں آپ اپنی ذات کا تنہا نقیب تھا
خود اپنے برخلاف بھی کرنا پڑا مجھے
میں چاہتا تھا رات کو سورج پہ جا رہوں
پاگل تھا، اعتراف بھی کرنا پڑا مجھے
یوں تو مِری زبان پہ تالے پڑے رہے
لیکن یہ انکشاف بھی کرنا پڑا مجھے
وہ شخص میری ذات کا محور تھا اس لیے
دنیا سے انحراف بھی کرنا پڑا مجھے
شاید مِرے مزاج کا موسم کہیں ملے
دنیا تِرا طواف بھی کرنا پڑا مجھے
بچوں کی ضد پہ بیچ دی مٹی مکان کی
پُرکھوں کے برخلاف بھی کرنا پڑا مجھے

نذر حسین ناز

No comments:

Post a Comment