دل سے طاعت تِری نہیں ہوتی
ہم سے اب بندگی نہیں ہوتی
ضبطِ غم بھی محال ہے ہم سے
اور فریاد بھی نہیں ہوتی
راس آتی نہیں کوئی تدبیر
دل نہ جب تک ہو ایک شعلۂ عشق
زندگی زندگی نہیں ہوتی
ایسی کچھ بیدلی سی غالب ہے
کہ تِری یاد بھی نہیں ہوتی
دل پرستی خدا پرستی ہے
خود پرستی خودی نہیں ہوتی
ضبطِ غم بھی محال ہے ہم سے
اور، فریاد بھی نہیں ہوتی
دل پرستی خدا پرستی ہے
خود پرستی خودی نہیں ہوتی
الحذر تشنگئ عشق جگر
ہائے تسکین ہی نہیں ہوتی
جگر بریلوی
No comments:
Post a Comment