نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا
مجھے یاں کسی پہ بھروسا نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
مِری سن، نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تُو کسی اور کے گھر چھپا
یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر
مِری جاں مجھے میرے اندر چھپا
خیالوں کی آمد میں یہ خارزار
ہے تیروں کی یلغار تو سر چھپا
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment