Friday, 10 January 2020

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
غنیمت کہ میں اپنے باہر چھپا
مجھے یاں کسی پہ بھروسا نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
سو میں اپنے ہونٹوں پہ اکثر چھپا
مِری سن، نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تُو کسی اور کے گھر چھپا
یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر
مِری جاں مجھے میرے اندر چھپا
خیالوں کی آمد میں یہ خارزار
ہے تیروں کی یلغار تو سر چھپا

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment