اپنے ہی گھر کے دروبام سے جھگڑا کر کے
میں نکل آیا ہوں کمرے کو اکیلا کر کے
جاؤ، تم خواب کنارے پہ لگاؤ خیمے
میں بھی آتا ہوں ذرا شام کو چلتا کر کے
پہلے پہلے یہاں جنگل تھا، گھنیرا جنگل
وہ شب و روز، مہ و سال، وہ بکھرے لمحے
آپ کہیے تو اٹھا لاتا ہوں یکجا کر کے
ہم فقیروں کے لیے شاہ و گدا ایک سے ہیں
بات کرنا بھی تو لہجہ ذرا دھیما کر کے
عشق منصوبہ بنا کر نہیں ہوتا ہر گز
شعر لکھا نہیں جاتا ہے ارادہ کر کے
نذر حسین ناز
No comments:
Post a Comment