فلمی گیت
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تو جو چاہے تو دن نکلتا ہے
تو جو چاہے تو رات ہوتی ہے
تجھ کو دیکھا ہے میری نظروں نے
کہ بنے یہ نظر زباں کیسے
نہ زباں کو دکھائی دیتا ہے
نہ نگاہوں سے بات ہوتی ہے
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تُو چلی آئے مسکراتی ہوئی
تو بکھر جائیں ہر طرف کلیاں
تُو چلی جائے اٹھ کے پہلو سے
تو اجڑ جائے پھولوں کی گلیاں
جس طرف ہوتی ہے نظر تیری
اس طرف کائنات ہوتی ہے
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
تُو نگاہوں سے نہ پلائے تو
اشک بھی پینے والے پیتے ہیں
ویسے جینے کو تیرے بن بھی
اس زمانے میں لوگ جیتے ہیں
زندگی تو اسی کو کہتے ہیں
جو بسر تیرے ساتھ ہوتی ہے
ذکر ہوتا ہے جب قیامت کا
تیرے جلووں کی بات ہوتی ہے
آنند بخشی
No comments:
Post a Comment