Wednesday 22 January 2020

کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے

اس سے پہلے کہ تجھے اور سہارا نہ ملے
میں تِرے ساتھ ہوں جب تک مِرے جیسا نہ ملے
کم سے کم بدلے میں جنت اسے دے دی جائے
جس محبت کے گرفتار کو صحرا نہ ملے
مجھ کو اک رنگ عطا کر تاکہ پہچان رہے
کل کلاں یہ نہ ہو تجھ کو مِرا چہرہ نہ ملے
لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے ہمیں دیکھا، نہ ملے
بس یہی کہہ کے اسے میں نے خدا کو سونپا
اتفاقاً کہیں مل جائے تو روتا نہ ملے
تم دعا کرتے رہو میرا سفر اچھا رہے
کوئی مل جائے مگر عقل کا اندھا نہ ملے
مجھ کو دیکھا تو مجھے ایسے لپٹ کر روئی
جیسے اک ماں کو کوئی گمشدہ بچہ نہ ملے
بددعا ہے کہ وہاں آئیں جہاں بیٹھتے تھے
اور افکار وہاں آپ کو بیٹھا نہ ملے

افکار علوی

No comments:

Post a Comment