پیرہن وہ جو کسی طور معطر ہی نہیں
کاغذی پھول تِرا حاصلِ مصدر ہی نہیں
آپ تصویر بناتے ہوئے تھک جائیں گے
میرے چہرے کے کئی رنگ میسر ہی نہیں
پوچھ مت کتنی خراشیں تھیں مِرے ماتھے پر
دکھ مجھے گھورتے رہتے ہیں اٹھا کر آنکھیں
جس طرح میرا مقدر تو مقدر ہی نہیں
ڈگریاں باپ کو مقروض بنا دیتی ہیں
آج کے دور کی تعلیم تو زیور ہی نہیں
اتنے نقصان اٹھا رکھے میں نے ساجد
اب مجھے رنج اٹھانے کا کوئی ڈر ہی نہیں
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment