رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا، لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانیے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
پانی پانی ہوئے مرقد پہ مِرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی گریاں دیکھا
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانبِ باغ
لے گئے کل، تو عجب رنگِ گلستاں دیکھا
ایک نالے میں ستم ہائے فلک سے چھوٹے
جس کو دشوار سمجھتے تھے، سو آساں دیکھا
کون کہتا ہے کہ ظلمت میں کم آتا ہے نظر
جو نہ دیکھا تھا، سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا
شیفتہ زلفِ پری رُو کا پڑا سایہ کہیں
میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا
مصطفیٰ خان شیفتہ
No comments:
Post a Comment