زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس
دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی
تجھ کو ناراض کروں ، روز مناؤں واپس
وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی
وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس
دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں
اب بتا، کون سے لمحے کو بلاؤں واپس؟
یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت
تُو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس
تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو چکا تیرا تماشا، تو میں جاؤں واپس
نذر حسین ناز
No comments:
Post a Comment