Monday 13 January 2020

نقش تعبیر کے کانٹوں میں ابھارے گئے ہیں

نقش تعبیر کے کانٹوں میں ابھارے گئے ہیں
خواب آنکھوں میں مِری یوں بھی سنوارے گئے ہیں
پہلے رسموں کی رسن سانسوں میں باندھی گئی ہے
زندگی کے لیے پھر ہم ہی پکارے گئے ہیں
پانی پینا بھی نہیں، پیاس بجھانی بھی نہیں
جانے کیوں لوگ وہ دریا کے کنارے گئے ہیں
صرف ارماں ہی نہیں قتل ہوئے ہیں میرے
دشتِ احساس میں جذبات بھی مارے گئے ہیں
آزمائش کی کوئی حد ہی نہیں ہے اپنی
ہم تو وہ ہیں کہ جو آتش سے گزارے گئے ہیں
جن کو پہچان بھی مٹی کی نہیں تھی کل تک
مثل کندن کے وہی لوگ نکھارے گئے ہیں
عمر بھر کوئی نگہبان نہیں تھا مینا
ہم وہ جاگیر ہیں جو جیت کے ہارے گئے ہیں

مینا نقوی

No comments:

Post a Comment