نقش تعبیر کے کانٹوں میں ابھارے گئے ہیں
خواب آنکھوں میں مِری یوں بھی سنوارے گئے ہیں
پہلے رسموں کی رسن سانسوں میں باندھی گئی ہے
زندگی کے لیے پھر ہم ہی پکارے گئے ہیں
پانی پینا بھی نہیں، پیاس بجھانی بھی نہیں
صرف ارماں ہی نہیں قتل ہوئے ہیں میرے
دشتِ احساس میں جذبات بھی مارے گئے ہیں
آزمائش کی کوئی حد ہی نہیں ہے اپنی
ہم تو وہ ہیں کہ جو آتش سے گزارے گئے ہیں
جن کو پہچان بھی مٹی کی نہیں تھی کل تک
مثل کندن کے وہی لوگ نکھارے گئے ہیں
عمر بھر کوئی نگہبان نہیں تھا مینا
ہم وہ جاگیر ہیں جو جیت کے ہارے گئے ہیں
مینا نقوی
No comments:
Post a Comment